بدھ، 29 جون، 2022
Ahades Mubaraka
جن چیزوں سے رسول اللّٰه ﷺ نے اللہ کی پناہ
مانگی، وہ مندرجہ ذیل ہیں :
1. قرض سے۔ (بخاری: 6368)
2. برے دوست سے۔ (طبرانی کبیر: 810)
3. بے بسی سے۔ (مسلم: 2722)
4.جہنم کے عذاب سے۔ (بخاری: 6368)
5. قبر کے عذاب سے۔ (ترمذی: 3503)
6. برے خاتمے سے۔ (بخاری: 6616)
7. بزدلی سے۔ (مسلم: 2722)
8. کنجوسی سے۔ (مسلم: 2722)
9. غم سے۔ ( ترمذی: 3503)
10. مالداری کے شر سے۔( مسلم: 2697)
11. فقر کے شر سے۔ (مسلم: 2697)
12. ذیادہ بڑھاپے سے۔ بخاری: 6368]
13. جہنم کی آزمائش سے۔ بخاری: 6368]
14. قبر کی آزمائش سے۔ بخاری: 6368]
15. شیطان مردود سے۔ بخاری: 6115]
16. محتاجی کی آزمائش سے۔ بخاری: 6368]
17. دجال کے فتنے سے۔ بخاری: 6368]
18. زندگی اور موت کے فتنے سے۔ بخاری: 6367]
19. نعمت کے زائل ہونے سے۔ مسلم: 2739]
20. الله کی ناراضگی کے تمام کاموں سے۔ [مسلم: 2739]
21. عافیت کے پلٹ جانے سے۔ مسلم: 2739]
22. ظلم کرنے اور ظلم ہونے پر۔ نسائی: 5460]
23. ذلت سے۔ نسائی: 5460]
24. اس علم سے جو فائدہ نہ دے۔ ابن ماجہ: 3837]
25. اس دعا سے جو سنی نہ جائے۔ ابن ماجہ: 3837]
26. اس دل سے جو ڈرے نہیں۔ (ابن ماجہ: 3837]
27. اس نفس سے جو سیر نہ ہو۔ (ابن ماجہ: 3837]
28. برے اخلاق سے۔ [ حاکم: 1949]
29. برے اعمال سے۔ [حاکم: 1949]
30. بری خواہشات سے۔ [حاکم: 1949]
31. بری بیماریوں سے۔ [حاکم: 1949]
32. آزمائش کی مشقت سے۔ [بخاری: 6616]
33. سماعت کے شر سے۔ [ابو داﺅد: 1551]
34. بصارت کے شر سے۔ [ابو داﺅد: 1551]
35. زبان کے شر سے۔ [ابو داﺅد: 1551]
36. دل کے شر سے۔ [ابو داﺅد: 1551]
37. بری خواہش کے شر سے۔ [ابو داﺅد: 1551]
38. بد بختی لاحق ہونے سے۔ [بخاری: 6616]
39. دشمن کی خوشی سے۔ [بخاری: 6616]
40. اونچی جگہ سے گرنے سے۔[نسائی: 5533]
41. کسی چیز کے نیچے آنے سے۔ [نسائی: 5533]
42. جلنے سے۔ [نسائی: 5533]
43. ڈوبنے سے۔ [نسائی: 5533]
44. موت کے وقت شیطان کے بہکاوے سے۔ [نسائی: 5533]
45. برے دن سے۔ [طبرانی کبیر: 810]
46. بری رات سے۔ [طبرانی کبیر: 810]
47. برے لمحات سے۔ [طبرانی کبیر: 810]
48. دشمن کے غلبہ سے۔ [نسائی: 5477]
49. ہر اس قول و عمل سے جو جہنم سے قریب کرے۔[ابو یعلی: 4473]
50. کفر سے۔ [ابو یعلی: 1330]
51. نفاق سے۔ [حاکم: 1944]
52. شہرت سے۔ [حاکم: 1944]
53. ریاکاری سے۔ [حاکم: 1944]
" محمد ﷺ اللّٰه کے نبی اور رسول ہیں. "محمد ﷺ کو اللّٰه نے معصوم پیدا فرمایا.
نہ رسول اللّٰه ﷺ کو شیطان بہکا سکتا تھا اور نہ ہی دنیا کی کسی چیز کا خوف. رسول اللّٰه ﷺ نے امت کی تعلیم کے لیے یہ دعائیں مانگ کر امت کو سکھایا کہ ان چیزوں سے پناہ مانگیں.
اے اللّٰه ! ہم ہر اس چیز سے تیری پناہ مانگتے ہیں جس سے رسول اللّٰه ﷺ نے مانگی
آمین ثم آمین
منگل، 28 جون، 2022
تعلیم وتربیت
تعلیم اورتربیت
عام طور پر تعلیم وتربیت کے یہ دولفظ ایک ساتھ استعمال ہوتے ہیں ۔جس کی وجہ سےعموما ان دونوں میں فرق کو پیش نظر نہیں رکھا جاتا۔ دوسری وجہ یہ ہے۔ کہ یہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ لازم وملزوم بھی ہیں۔ یعنی تعلیم ،تربیت کے بغیر کامل نہیں ہوسکتی ۔اور تربیت تعلیم کے بغیر ممکن نہیں ہوسکتی۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں موجودہ تعلیمی نظام میں ان دونوں کو الگ کیا گیا ہے
تعلیم اورتربیت میں بنیادی فرق کیا ہے
تعلیم
اگرہم تعلیم کو سمجھنے کی کوشش کریں، توتعلیم دراصل سیکھنے سکھانے کا ایک عمل ہے۔ جس سے بچے علم، ہنر، اقدار، عقائد اور عادا ت کو سیکھ سکتے ہیں۔
ماہر تعلیم کے مطابق تعلیم کے مقاصد میں عقل وشعور کو فروغ دینا اورمعاشرتی ضروریات کی تکمیل کرنا ہے ۔ اس کا ایک اور مقصد بچوں کو معاشی سرگرمیوں میں شراکت کے قابل بناناہے۔ نیز طلبا کو ملازمت کے لئے تیار کرنے کے علاوہ ان کو خاص کیریئر ، خاص معاشرتی، معاشی یا سیاسی
دینی تناظر میں تعلیم کا مقصد
دین میں تعلیم کا بنیادی مقصد خدا کی معرفت اور تہذیب نفس ہے۔دوسرے الفاظ میں بامعنی اور بامقصد زندگی گزارنے کے قابل ہونا ہے۔دین یہ کہتاہے کہ تم تعلیم اس لئے حاصل کرو تاکہ تم اللہ کو پہچانو ۔اس کی ذات اور صفات کو نہ صرف پہچانو ۔بلکہ اس پر ایمان بھی اس انداز سے لے آو جو اس کا حق ہے۔ باقی ثانوی مقاصد کئی ہوسکتے ہیں۔ مثلا یہ کہ ہمیں دنیا میں رہنا ہےتو تعلیم کے ذریعے اپنے شعورکو پروان چڑھانا ہے ۔ یہاں کی معاشرت کے کیاتقاضے ہیں؟ اس کی معیشت کے کیا تقاضے ہیں؟یہاں رہتے ہوئے خالق اور مخلوق سے تعلقات میں کیسے توازن رکھنا ہے۔ خالق اور مخلوق کے حقو ق کیسے اداکرنے ہیں؟ دنیا میں رہتے ہوئے رزق کمانے کے کونسے کونسے ذرائع ہیں؟ وغیرہ وغیرہ
۔
تربیت کیا ہے؟
تربیت کا لفظ عربی زبان سے آیا ہے جس کا مادہ (ر ب ی)ہے۔ عربی میں ربی یربی اور مصدر تربیۃ کے معنی بچہ کی پرورش کرنے، پالنے اورمہذب بنانے کے آتے ہیں ۔ تربیت درحقیقت وہ فن ہے جسے انسان سازی کا فن بھی کہا جاتا ہے۔انسان دوعناصر کا مجموعہ ہے ۔ایک ظاہری جسم جو انسان کے علاوہ ہردوسری مخلوق کے پاس بھی ہوتاہے۔ جبکہ انسانی ترکیب کا دوسرا اہم عنصر اس کے اخلاق وعادات، مہارتیں،اعمال وکردار، اس کی سوچ وافکار اور مجموعی رویے ہوتے ہیں جو اسے اخلاقی وجود عطا کرتے ہیں۔
انسان کی فطرت میں حق کی پہچان قدرت کی طرف سے پیدائش کے وقت سے ہی ودیعت کی جاتیلیکن اگر فطری ماحول کو والدین یا معاشرے کی طرف سے مکدر بنادیا جائے۔ فطرت کی پہچان کے آگے بند باندھ دیا جائے۔ یا اس سے پیٹھ پھیرنے پر مجبور کردیا جائے ۔تو پھر بچے کے لئے حق کی پہچان مشکل ہوجاتی ہے۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: کل مولودیولد علی الفطرۃ فابواہ یہودانہ او ینصرانہ او یمجسانہ (۲) “ہر بچہ اللہ کی طرف سے فطرت(اسلام) پر پیدا کیا جاتا ہے۔لیکن اس کے والدین اسے یہودی بنادیتے ہیں نصرانی یا مجوسی بنادیتے ہیں
وقت قدرت کی طرف سے اچھائی اور برائی دونوں کی فطری استعداد لے کر پیدا ہوتا ہے۔ قرآن کریم نے اسی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: فالھمھا فجورھا وتقواھا (۳) پس انسان کے نفس میں گناہ اور نیکی کی استعداد کو القاء کیا گیا۔یعنی انسان کواستطاعت اور اختیار عطا کیا گیا۔کہ وہ چاہے تو گناہ بھی کرسکتا ہے اورچاہے نیکی کا راستہ بھی اختیار کرسکتا ہے۔
تربیہ کا ایک اہم مقصد
تعلیم وتربیت میں فرق کا حاصل یہ ہوا ۔کہ تعلیم انسانی فہم اورشعور کی سطح کی چیز ہے۔ جس سے انسان اچھائی کو اچھا اور برائی کو برا جان سکتاہے۔ یعنی اس چیزکی اچھائی یابرائی محض اس کے علم میں آتی ہے۔ جبکہ تربیت اس سے آگے کی سطح کی چیز ہے ۔جس میں شعوری علم اس کے مزاج کاحصہ بن جاتا ہے۔ جس کے نتیجے میں اچھائی اس کو اچھی لگنے لگتی ہے۔ اور برائی اسے بری لگنے لگتی ہے۔یعنی اس کامزاج اور اسکی طبیعت اس علم کے مطابق ڈھل جاتی ہے
تعلیم وتربیت پر چند اشعار
آدمیت اور شے ہے علم ہے کچھ اور شے
کتنا طوطے کو پڑھایا پر وہ حیواں ہی رہا
شیخ ابراہیم ذوقؔ
خشت اول جوں نہد معمار کج
تاثریا می نہد دیوار کج
’’اگر معمار پہلی اینٹ غلط اور ٹیڑھی رکھ دے تو دیوار کو بلندی تک ٹیڑھا ہونے سے کیسے روکا جا سکے گا‘‘
نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب حاضرکی
یہ ضاعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے
علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ اپنے ایک انگریزی مضمون جس کا عنوان Political Thoughts in Islam ہے میں بجاطور پر فرماتے ہیں۔ ’’ہمیں صرف اس بات کا ڈر ہے کہ کہیں یورپی کلچر کی آنکھوں کو خیرہ کرنے والی چمک دمک ہماری ترقی کے راستے میں حائل ہو کر ہمیں اپنے کلچر کے حقیقی تصور تک پہنچنے میں ناکام نہ کر دے۔ وہ اس بات پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں کہ صدیوں سے ہمارا مذہبی فکر جامد اور بے نمو ہو گیا اور مسلمان نئی نسل، نئے زمانے کے تقاضوں کو پورا کرنے سے غفلت برت رہے ہیں، وہ مغربی فکر اور اور عملی کمالات کے اچھے پہلوؤں کی تحسین کرتے ہیں مگر اس کی ظاہری حالت کو جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری سے تعبیر کرتے ہیں، لیکن اہل مغرب کی علم جوئی، تحقق پسندی، سائنسی ترقی، تسخیر کائنات اور جہاں بینی کی تعریف کرتے ہیں اس سلسلے میں ان کے یہ دو اشعار مسلمان نوجوانوں کے لئے لمحہ فکریہ ہیں۔ فرماتے ہیں۔
خودی کی موت سے مشرق کی سر زمینوں میں
ہوا نہ کوئی خدائی کا راز داں پیدا
نظر آتے نہیں بے پردہ حقائق ان کو
آنکھ حق کی ہوئی محکمومی و تقلید سے کور
دوسرے شعر میں علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے اس بات کا شکوہ کیا ہے کہ افسوس عصرحاضر کے مسلمانوں کی فکر اس قدر جامد ہو گئی ہے کہ انہیں اپنے آباؤ اجداد کے شاندار ماضی کے حقائق سے بھی آگاہی نہیں اور محکومی و تقلید نے ان کے جوہر عمل کو کند کر کے رکھ دیا ہے۔
علامہ نوجوان نسل کو اپنی ملّت کا مستقبل تصور کرتے تھے۔ وہ ان نوجوانوں کی تربیت ان میں ایمانی جذبہ اور دینی بصیرت پیدا کر کے اس نہج پر کرنا چاہتے تھے کہ وہ صحیح معنوں میں قوم کے معمار بن سکیں۔ قرآن حکیم سے انہیں جو شغف تھا وہ کسی صاحب نظر سے پوشیدہ نہیں۔ اسی طرح حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات سے انہیں جو والہانہ محبت اور شیفتگی تھی اس کا اظہار ان کی شاعری اور نثری تحریروں
جابجا ہوتا ہے۔ وہ یہی جذبہ اور ذوق و شوق نوجوانوں کی رگ و پے میں اتارنا چاہتے ہیں چنانچہ ان کی زندگیوں کو قرآن و سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات سے آراستہ و پیراستہ کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور پکار اٹھتے ہیں۔
جوانوں کو مری آہ و سحر دے
پھر ان شاہین بچوں کو بال و پردے
خدایا آرزو میری یہی ہے
مرا نورِ بصیرت عام کر دے
بچوں کی تعلیم و تربیت میں سکول کیا کردار ادا کرتا ہے؟
جواب: ہر بچہ مختلف فطری صلاحیتوں کا مالک ہوتا ہے، لیکن ان فطری صلاحیتوں کی تکمیل اور جلا کے لیے رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس کے لیے معاشرے میں سکول کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا جاتا ہے جہاں بچہ معاشرتی مطابقت پیدا کرنے اور اپنے آپ کو سماجی ضروریات کے مطابق ڈھالنے کے لیے اپنی خصوصیات اور صلاحیتوں کو ترقی دیتا ہے۔
اگرچہ سکول کا سارا انتظام و انصرام ہی بچے کے لیے مددگار ہوتا ہے، لیکن اس کے لیے اہم پلیٹ فارم کلاس روم ہے جہاں بچہ تعلیمی سرگرمیوں کے ذریعے ذہنی نشو و نما کے عمل سے گزرتا ہے۔ استاد ہر بچے کی مقیاسِ ذہانت (IQ Level) کی سطح اور اس کے رحجانات و میلانات کا لحاظ رکھتے ہوئے راہنمائی فراہم کرتا ہے۔ مؤثر تدریس کے لیے کلاس روم کے ماحول کا سازگار ہونا ضروری ہے، کیونکہ دورانِ تدریس کلاس روم میں مختلف واقعات وقوع پذیر ہوتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے بعض اوقات کلاس روم کا ماحول پیچیدہ بھی ہوسکتا ہے۔ لہٰذا استاد کو کوئی ایسا جارحانہ رویہ اختیار نہیں کرنا چاہیے اور نہ ہی کوئی ایسا قانون وضع نہیں کرنا چاہیے جو طلباء کو تعلیمی عمل سے بغاوت پر اُکسائے۔
اولاد کی تربیت میں والدین کا کردار
اولاد کو دینی تعلیم سے آراستہ کرنا اور اسلامی نہج پر ان کی تربیت کرنا یہ وقت کا اہم ترین تقاضہ ہے،اس میں ذرہ برابر بھی کوتاہی بہت بڑے نقصان کا باعث ہوسکتی ہے،والدین کی ذمہ داری ہے کہ اپنے اندر احساس ذمہ داری پیدا کریں،بچوں کے مستقبل کوتباہ ہونے سے بچالیں،ہر آن ،ہر لمحہ اپنی اولاد کی جانب تربیت کی نگاہ رکھیں،لایعنی اولاد کی تعلیم و تربیت میں کوتاہی آخرت میں مواخذہ کاسبب بن سکتی ہے، اسی لیےاللہ تعالٰی اہل ایمان سے خطاب کرکے فرماتا ہے:اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل عیال کو جہنم کی آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن لوگ اور پتھر ہیں اس پر سخت اور طاقتور فرشتے مقرر ہیں جو اللہ کی نافرمانی نہیں کرتے انہیں جو حکم دیا جائے وہ کر گزرتے ہیں (التحریم :6)۔ نار جہنم سے بچنے کی فکر جس طرح خود کو کرنی ہے اسی طرح والدین کی یہ اہم ذمہ داری ہے کے وہ اپنی والاد کی بچپن سے ایسی تربیت کریں کے ان میں دینی شعور پختہ ہو اور بڑے ہوکر وہ زندگی کے جس میدان میں بھی رہیں ایمان وعمل صالح سے ان کا رشتہ نہ صرف قائم بلکہ مضبوط رہے۔
حضرت علی کرم الله وجہہ سے منقول ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:” اپنے بچوں کو تین باتیں سکھاؤ، اپنے نبی کی محبت اور ان کے اہل بیت سے محبت اور قرآن مجید کی تلاوت، اس لیے کہ قرآن کریم یاد کرنے والے الله کے عرش کے سایہ میں انبیاء کے ساتھ اس دن میں ہوں گے جس دن اس کے سایہ کے علاوہ اور کوئی سایہ نہ ہو گا۔ “(طبرانی)
اس حدیث پاک میں جنابِ رسول کریم صلی الله علیہ وسلم بچوں کی بہترین تربیت کے حوالہ سے بہترین راہ نمائی فرما دی کہ نبی ﷺ سےمحبت کرنا، ان کے اہل بیت، صحابہ کرام رضوان الله علیہم اجمعین سے محبت کرنا بچوں کو سکھایا جائے اور قرآن کریم کی تلاوت کرنے کی تلقین کی جائے۔ والدین کی طرف سے اپنی اولاد کو بہترین تحفہ وہ قرآنی تعلیم ہے۔ آج ہم اپنی اولاد کے لیے روپیہ، پیسہ اور طرح طرح کی جائیداد، پراپرٹی جمع کرتے تھکتے نہیں کہ یہ چیزیں ہمارے بعد ہماری اولاد کے لیے فائدہ مند ہوں، لیکن ان کی دینی علوم کی پیاس بجھانے کی ہم ذرا فکر نہیں کرتے، حالاں کہ جائیداد اور مال ودولت سے صرف دنیاوی حاجات کاتکفل ہوتاہے، جب کہ قرآن وحدیث اور دینی تعلیم تو دنیا وآخرت دونوں میں کام آتی ہے۔
"اولاد”اللہ تعالیٰ کی بیش بہا نعمت اوروالدین کےلیےمستقبل کا قیمتی اثاثہ ہے؛یہی وجہ ہے کہ ان کے وجود کو دنیاوی زندگی میں زینت اور رونق سے تعبیرکیاجاتاہے؛لیکن یہ (اولاد)رونق وبہار اور زینت وکمال کاسبب اسی وقت بنتی ہے جب انہیں زیورتعلیم سے آراستہ کیا جاتاہے، بچپن ہی سے ان کی صحیح نشوونما کا خیال رکھاجاتاہے، ان کی دینی تربیت وپرداخت کو ضروری سمجھاجاتاہے، نیز اسلامی وایمانی ماحول میں انہیں پروان چڑھانےکا اہتمام کیاجاتاہے۔ شریعت مطہرہ کی رو سے والدین پر اولاد کےسلسلہ میں جو حقوق عائد ہوتے ہیں ان میں سب سے اہم اور مقدم حق اُن کی دینی تعلیم وتربیت ہی ہے۔ اسلام عصری تعلیم کا ہرگز مخالف نہیں ؛لیکن دین کی بنیادی تعلیم کا حُصول اور اسلام کے مبادیات وارکان کا جاننا تو ہر مسلمان پر فرض ہے اور اسی پر اخروی فلاح وکامیابی کا دار و مدار ہے۔
دین وایمان کا تحفظ اسی وقت ممکن ہے جب اس کے متاع گراں مایہ ہونے کا احساس دل میں جاگزیں ہو، اگر کوئی دین وایمان کو معمولی چیز سمجھتاہے تو پھر اس سے خاتمہ بالخیر کی توقع رکھنا بھی مشکل ہے۔ اس کا اندازہ اس ایک واقعہ سے لگایاجاسکتاہے جسے قرآن مجید کی سورت البقرۃ میں ذکرکیاگیا:
حضرت یعقوب علیہ السلام جب بسترِ مرگ پر آخری سانسیں گن رہے تھے تو انہیں یہ فکر بار بار ستائے جارہی تھی کہ میری اولاد میرے بعد کس کی عبادت کرے گی؟بالآخر انہوں نے اپنی اولاد کو بلا کر یہ سوال کیا کہ میرے بعد تمہارا معبود کون ہوگا؟۔ بیٹوں نے اطمینان دلاتے ہوئےکہا کہ ہم آپ کی موجودگی جس طرح دین برحق پر قائم رہے اور اپنے آباء واجداد سیدنا ابراہیم ؑ و اسماعیل ؑ اور اسحق کے پرودگار کی عبادت کرتے رہے اسی طرح آپ کے بعد بھی ہم اسی رب العالمین کی بندگی کریں گے جس کی تعلیم وتلقین ہمارے بڑوں نے فرمائی ہے۔ قرآن میں اس طرح اس کی منظر کشی کی گئی:کیا تم اس وقت موجود تھے جب یعقوب کی موت کا وقت آیا تھا، جب انہوں نے اپنے بیٹوں سے کہا تھا کہ تم میرے بعد کس کی عبادت کرو گے ؟ان سب نے کہا کہ ہم اسی ایک خداکی عبادت کریں گے جو آپ کا معبود ہے اور آپ کے با پ دادوں ابراہیم، اسماعیل اور اسحاق کا معبودہے، اور ہم صرف اسی کے فرماں بردار ہیں (البقرۃ :133)
یہاں یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہے کہ اولاد کی تعلیم و تربیت میں کوتاہی آخرت میں مواخذہ کاسبب بن سکتی ہے، اسی لیےاللہ تعالٰی اہل ایمان سے خطاب کرکے فرماتا ہے:اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل عیال کو جہنم کی آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن لوگ اور پتھر ہیں اس پر سخت اور طاقتور فرشتے مقرر ہیں جو اللہ کی نافرمانی نہیں کرتے انہیں جو حکم دیا جائے وہ کر گزرتے ہیں (التحریم :6)۔ نار جہنم سے بچنے کی فکر جس طرح خود کو کرنی ہے اسی طرح والدین کی یہ اہم ذمہ داری ہے کے وہ اپنی والاد کی بچپن سے ایسی تربیت کریں کے ان میں دینی شعور پختہ ہو اور بڑے ہوکر وہ زندگی کے جس میدان میں بھی رہیں ایمان وعمل صالح سے ان کا رشتہ نہ صرف قائم بلکہ مضبوط رہے۔
تربیت کی دوقسمیں
(۱)ظاہری تربیت
(۲)باطنی تربیت۔
ظاہری اعتبار سے تربیت میں اولاد کی ظاہری وضع قطع، لباس، کھانے، پینے، نشست وبرخاست، میل جول، اس کے دوست واحباب اور تعلقات و مشاغل کو نظر میں رکھنا، اس کے تعلیمی کوائف کی جانکاری اور بلوغت کے بعد ان کے ذرائع معاش کی نگرانی وغیرہ امور شامل ہیں، یہ تمام امور اولاد کی ظاہری تربیت میں داخل ہیں۔ اور باطنی تربیت سے مراد اُن کے عقیدہ اور اخلاق کی اصلاح ودرستگی ہے۔
اولاد کی ظاہری اور باطنی دونوں قسم کی تربیت والدین کے ذمہ فرض ہے۔ ماں باپ کے دل میں اپنی اولاد کے لیے بے حد رحمت وشفقت کا فطری جذبہ اور احساس پایا جاتا ہے۔ یہی پدری ومادری فطری جذبات واحساسات ہی ہیں جو بچوں کی دیکھ بھال، تربیت اور اُن کی ضروریات کی کفالت پر اُنھیں اُبھارتے ہیں۔ ماں باپ کے دل میں یہ جذبات راسخ ہوں اور ساتھ ساتھ اپنی دینی ذمہ داریوں کا بھی احساس ہو تو وہ اپنے فرائض اور ذمہ داریاں احسن طریقہ سے اخلاص کے ساتھ پوری کرسکتے ہیں۔ (ماہ نامہ دارالعلوم، شعبان:1437)
حضرت علی کرم الله وجہہ سے منقول ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:” اپنے بچوں کو تین باتیں سکھاؤ، اپنے نبی کی محبت اور ان کے اہل بیت سے محبت اور قرآن مجید کی تلاوت، اس لیے کہ قرآن کریم یاد کرنے والے الله کے عرش کے سایہ میں انبیاء کے ساتھ اس دن میں ہوں گے جس دن اس کے سایہ کے علاوہ اور کوئی سایہ نہ ہو گا۔ “(طبرانی)
اس حدیث پاک میں جنابِ رسول کریم صلی الله علیہ وسلم بچوں کی بہترین تربیت کے حوالہ سے بہترین راہ نمائی فرما دی کہ نبی ﷺ سےمحبت کرنا، ان کے اہل بیت، صحابہ کرام رضوان الله علیہم اجمعین سے محبت کرنا بچوں کو سکھایا جائے اور قرآن کریم کی تلاوت کرنے کی تلقین کی جائے۔ والدین کی طرف سے اپنی اولاد کو بہترین تحفہ وہ قرآنی تعلیم ہے۔ آج ہم اپنی اولاد کے لیے روپیہ، پیسہ اور طرح طرح کی جائیداد، پراپرٹی جمع کرتے تھکتے نہیں کہ یہ چیزیں ہمارے بعد ہماری اولاد کے لیے فائدہ مند ہوں، لیکن ان کی دینی علوم کی پیاس بجھانے کی ہم ذرا فکر نہیں کرتے، حالاں کہ جائیداد اور مال ودولت سے صرف دنیاوی حاجات کاتکفل ہوتاہے، جب کہ قرآن وحدیث اور دینی تعلیم تو دنیا وآخرت دونوں میں کام آتی ہے۔
چھوٹے بچوں کی تربیت کا طریقۂ کار:
چھوٹے بچوں کا ذہن صاف وشفاف اور خالی ہوتا ہے اس میں جو چیز بھی نقش کردی جائے وہ نقش علی الحجرکی طرح مضبوط وپائیدار ہوتی ہے۔ قرآن وحدیث میں یہ حقیقت واشگاف انداز میں بیان کی گئی کہ ہر بچہ توحید خالص کی فطرت پر پیدا ہوتا ہے اصل کے اعتبار سے اس میں طہارت، پاکیزگی، برائیوں سے دوری اور ایمان کی روشنی ہوتی ہے۔ پھر اسے گھر میں اچھی تربیت اور معاشرہ میں اچھے ساتھی میسر آجائیں تو وہ ایمان و اخلاق میں اسوہ نمونہ اور کامل انسان بن جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے ہر نومولود، فطرت سلیمہ پر پیدا ہوتا ہےپھر اس کے والدین اسے یہودی، نصرانی یا مجوسی بنادیتے ہیں۔ ۔ ۔ یعنی بچے کو جیسا ماحول اور تربیت میسر آئے گی وہ اسی رخ پر چل پڑے گا اگر اسے ایمانی ماحول اور اسلامی تربیت میسر آجائے تو وہ یقینا معاشرہ میں حقیقی مسلمان بن کر ابھرے گا؛ لیکن اس کی تربیت صحیح نہج پر نہ ہو گھر کے اندر اور باہر اسے اچھا ماحول نہ ملے تو وہ معاشرہ میں مجرم اور فسادی انسان بن کر ابھرے گا۔
ماہرین نفسیات کے مطابق بچپن میں اولاد کی تربیت جوانی کے بالمقابل بہت آسان ہے، جس طرح زمین سے اُگنے والے نرم ونازک پودوں کو بہ سہولت کہیں بھی موڑا جاسکتاہے اسی طرح بچوں کے خیالات، افکار اور طرز زندگی کو جس رخ پر چاہے بہ آسانی موڑا جاسکتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچوں کی تربیت کے حوالے سے کیا رہنمائی فرمائی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود اس کا کس درجہ خیال رکھتے تھے؟؟؟اس کی بیشمار مثالیں کتب حدیث وسیرت میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ حضرت عمروبن ابی سلمہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں میں جب چھوٹا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھانا تناول کرتے ہوئے میرا ہاتھ برتن میں ادھر اُدھر چلا جاتا تھا۔ ۔ ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ارشاد فرمایا اے لڑکے اللہ کا نام لو دائیں ہاتھ سے کھاؤ اور اپنے قریب سے کھاؤ (رواہ مسلم)۔
اسی طرح حضرت عبداللہ بن عامر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :ایک روز اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر تشریف فرماتھے میری والدہ نے مجھے پکارا آؤ ایک چیز دوں گی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے والدہ سے دریافت فرمایا کے تم نے اسے کیا دینا چاہا؟؟؟۔ ۔ ۔ والدہ نے عرض کیا کے کھجور دینا چاہتی تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے والدہ سے ارشاد فرمایا: سنو اگر تم اسے کچھ نہ دیتیں تو تمہارے حق میں (نامہ اعمال میں ) یہ ایک جھوٹ لکھا جاتا (رواہ ابوداؤد وبیہقی)
غور کیجئے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بچوں کو اُمید وآس دلا کر کچھ نہ دینے سے بھی منع فرمایا اور اسے جھوٹ قرار دیا اس کا ایک اہم نقصان یہ ہے کہ اس سے بچوں کی تربیت اور اُن کے اخلاق وکردار پر منفی اثرات پڑیں گے اور وہ بھی جھوٹ کے عادی ہوجائیں گے کیونکہ بچے اپنے بڑوں سے جس چیز کو دیکھتے یا سنتے ہیں اس کا اثر بہت جلد قبول کر لیتے ہیں اور بچپن کا یہ اثر نہایت مضبوط ومستحکم اور پائیدار ہوتا ہے۔
نوجوانوں کی تربیت کا لائحہ عمل:
بچپن میں لاڈ پیار اور غفلت و لاپرواہی کے سبب اولاد کی تربیت میں کچھ کمی رہ جائےتو بڑے ہونےکےبعدبھی اس کمی کا ازالہ ممکن ہے؛مگر مثبت نتائج کےلیے عجلت کا مظاہرہ نہ کیاجائےاور تربیت میں تدریجی انداز اختیار کیاجائے۔ چنانچہبچوں کےبڑےہوجانےکےبعد غلطی پر تنبیہ کی ترتیب یوں ہونی چاہیے: 1-افہام وتفہیم۔ 2-زجروتوبیخ۔ 3-مارکے علاوہ کوئی دوسری سزا مثلاً قطع تعلق وغیرہ۔ یعنی غلطی ہوجانے پرحکمت عملی کے ساتھ تربیت کا اہتمام کیا جائے، اگر پہلی مرتبہ غلطی ہو تو اولاً اُسے اشاروں اور کنایوں سے سمجھایا جائے، صراحةً برائی کا ذکر کرنا ضروری نہیں۔ اگربچہ بار بار ایک ہی غلطی کرتا ہے تو نصیحت و موعظت کے مختلف انداز اختیارکیےجائیں ساتھ ہی اس کے دل میں یہ بات بٹھائی جائے کہ اگر دوبارہ ایسا ہوا تو اس کے ساتھ سختی برتی جائے گی، اس وقت بھی ڈانٹ ڈپٹ کی ضرورت نہیں ہے، نصیحت اور پیار سے اُسے غلطی کا احساس دلایاجائے۔ اور سب سے بڑھ کر گھر کے ماحول کو دینی بنانے کی ہرممکن کوشش کی جائے؛تاکہ وہ رفتہ رفتہ اسلامیات سے قریب ہونے کا عادی ہوجائے۔ مذکورہ بالا امور کی انجام دہی کوایک چیلنج کے طور پر لیاجائے
آج کی سب سے بڑی عبادت یہ ہے کہ اس فکری اضطراب اور نفسیاتی الجھنوں کا علاج بہم پہنچایا جائے جس میں آج کا تعلیم یافتہ نوجوان بری طرح گرفتار ہے اور اس کی عقل و ذہن کو اسلام پر پوری مطمئن کر دیا جائے.‘‘ اس اہم اور بنیادی کام سے تغافل برتنا ایک سنگین جرم ہے، جس کا خمیازہ یقینا بھگتنا پڑے گا۔ نوجوانوں کے درمیان مقصد زندگی سے ناآشنائی، تزکیہ و تربیت کی کمزوری، اور ان کے اندر فکری، تعمیری اور تخلیقی سوچ کا پروان نہ چڑھنا بہت بڑا المیہ ہے۔
مختصر یہ کہ اس وقت گرمائی تعطیلات کا زمانہ چل رہاہےجو اگرچہ بہت طویل نہیں ہوتا، مگر منظم کوششوں اور منصوبہ بند کاوشوں سے بڑی حدتک تبدیلی لائی جاسکتی - ایک صالح اور انقلابی جدوجہد کے ذریعے مسلم نوجوانوں کے رخ کو دین وآخرت کی طرف موڑنا چاہیے۔والدین اور اساتذہ پر بنیادی ذمہ داری عائد ہوتی ہے وہ بچوں کی خصوصی تربیت کا اہتمام کریں کیونکہ یہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
ماہ ذوالحج کے اہم کام
*قیمتی ترین دن آ رہے ہیں*
〰️🌟〰️〰️
*🎊سال بھر کے دس عظیم ترین دن ان کا ایک ایک منٹ ہم نے ضاٸع ںہیں ھونے دینا ان شاء اللہ اپنا شیڈول لکھ لیں تاکہ روٹین سے سب کام کر سکیں لکھنے سے عمل پختہ ھوجاتاھے* 👇🏻
*📝کرنے کے کام* ✍🏻
*1: روزے*
*2: صدقات*
3: *تحلیل*
4: *زیادہ سے زیادہ دعاٸیں چلتے پھرتے اور خاص کرکےسجدوں میں دعا*
*🌤️صبح سے رات تک کی روٹین☄️*
💫رات کو نیت کرکے سونا ھے مضبوظ نیت عمل کرواۓ گی طاقت دینے والی اللہ کی ذات ھے
*💫اپنے دن کا آغاز تہجد سے کرنا ھے*
*💫روزہ رکھنا*
*💫فجر کے بعد تلاوت*
*💫تمام نمازیں اول وقت میں ادا کرنی ہیں*
*💫 اشراق کے نفل پڑھنا*
*💸دن کا آغاز صدقے سے کرنا ھے جتنی وسعت ھو روزانہ صدقہ کرنا ھے*
گھریلو کاموں میں زبان مسلسل اللہ کے ذکر میں تر رہے اللہ کی بڑاٸی زیادہ سے زیادہ بیان کرنا
*📿 کثرت سےپڑھنا *
اللہ اکبر اللہ اکبر لاالہ الااللہ اللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد
*📿کم از کم 100 دفعہ تسبیح بیان کرنا*
سبحان اللہ والحمدللہ لاالہ الا اللہ واللہ اکبر
*🍱 ان دس دنوں میں روزانہ خود کھاناپکا کر کھلانا ھے۔۔۔۔۔۔۔ مساکین کو ایک سالن ضرور دینا ھے۔ روٹیاں سبزی یا سالن زیادہ بنانا ھے کھانا کھلانا بہترین عمل ھے جتنی وسعت ھے اتنے گھروں کو کھانا پکا کر دینا ھے*
*☀️ظہر پڑھ کر ریسٹ کرلیں*
*☀️اول وقت میں تمام نمازیں ادا کرنی ہیں*
*☀️رات کو 2 نفل زائداداکریں
*🤲🏻📖روزانہ کچھ نہ کچھ قرآن کے حصے کی تفسیر سننی ھے اور اپنا عمل بدلنا ھے اور چلتے پھرتے ڈھیروں دعاٸیں مانگنی ہیں*
*🎊ان دنوں میں کیے جانے والے کام پورے سال میں کیے جانے والے عمل سے بہترین ھے*
*صدقہ خواہ مسکراہٹ سے ھو یا کسی کی مدد سے ھو*
*❄️اپنی اخلاقی تربیت کرنی ھے❄️*
*⭐آواز میں نرمی لانی ھے*
*⭐حسد سے بچنا ھے*
*⭐غیبت سے بچنے کی کوشش کرنی ھے*
*⭐دوسروں کو پانی پلانا ھے*
اللہ کو راضی کرلیں کمر کس لیں دعاٸیں قبول کروالیں
اللہ تعالیٰ ھم سب کو اپنی رضا کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین یاارحم الراحمین یاعزیز یا
غفار یاذالجلال والاکرام 🤲💖
تعلیم و تربیت
⭐ اسکول کی تعطیلات میں بچوں کی تربیت کا شیڈول :-
💫 پہلا مرحلہ شب و روز کے لیے نظام الاوقات کا تعین ہے، بچوں کی عمر، تعلیم اور مصروفیات کو مدنظر رکھ کر بچوں سے مشاورت کر کے سونے اور جاگنے کے اوقات کا تعین کر لیا جائے اور اس پر کاربند بھی رہا جائے۔
💫 بچوں سے دن کا آغاز نمازِ فجر سے کروایا جائے۔ یہ بہترین اور بابرکت وقت بچوں کو سونے کی نذر نہ کرنے دیا جائے۔ عام طور پر تعطیلات کا آغاز ہوتے ہی بچوں کا رات دیر تک جاگنا اور صبح دیر سے اُٹھنا معمول بن جاتا ہے جو کہ نامناسب اور خلافِ فطرت ہے۔ الله تعالیٰ نے رات آرام و سکون کے لیے اور دن کام کے لیے بنایا ہے۔ اس لیے والدین خود بھی صبح اُٹھ کر نماز ادا کریں اور اسی طرح بچوں کو بھی نماز کی عادت ڈالیں۔
💫۔ نمازِ فجر ادا کر کے جلد از جلد سونے کی غیر فطری روایت انسانی روح کا حسن غارت کر دیتی ہے۔ نمازِ فجر کے بعد سونا ناگزیر ہو تو بھی دوبارہ اٹھنے کا وقت مقرر کیا جائے۔
💫فجر کی نماز کے لیے بر وقت اُٹھنے اور ادائیگی نماز کی حوصلہ اِفزائی کے لئے انعام بھی دیا جا سکتا ہے ہر بہن اور بھائی کی فجر کے وقت باری باری اُٹھانے کی ذمہ داری والدین لگائیں تاکہ سب کو ذمہ داری کا احساس ہو اور ایک دوسرے کے درمیان مروت اور نیکی میں تعاون کا جذبہ پیدا ہو۔
💫والدین بچوں کے ساتھ مل کر ایک دوسرے سے قرآن حکیم کی تلاوت سنیں۔ چاہے دو آیات ہی کیوں نہ ہوں۔ اجتماعی مطالعے کی ایک مختصر نشست بھی ہو سکتی ہے جس میں چند آیات کی مختصر تفسیر، ایک حدیث کا مطالعہ یا اسلامی لٹریچر سے کچھ انتخاب کیا جاسکتا ہے۔ عملی رہنمائی کے طور پر روز مرہ کی دعائیں، نماز اور اس کا ترجمہ، نمازِ جنازہ، مختصر سورتیں وغیرہ تھوڑی تھوڑی کر کے یاد کروائی جائیں۔
💫والدین، بچے اور گھر کے سب افراد اپنی اہم مصروفیات کے بارے میں ایک دوسرے کو آگاہ کریں۔ اپنے کام کے سلسلے میں ایک دوسرے سے مشورہ طلب کریں اور تعاون کریں۔ نیز گزشتہ کل کا بھی جائزہ لیں کہ اپنے آج کو کل سے کیسے بہتر بنایا جائے۔ اس طرح اپنا جائزہ و احتساب اور مشورہ دینے اور قبول کرنے کی تربیت بھی ہو گی۔
💫 چھٹیوں میں سب اہل خانہ ناشتہ اور دونوں وقت کا کھانا اکٹھے کھائیں اس سے باہمی محبت میں اضافہ ہو گا۔
💫۔ والدین بچوں کے ساتھ مل کر ہر ہفتے کا شیڈول ترتیب دیں، بچوں کے ذہن اور دلچسپیوں کے مطابق ذمہ داریاں بانٹیں۔
💫 والدین بچوں کے اسکول کے ہوم ورک کی مرحلہ وار تقسیم کرکے اپنی نگرانی میں روزانہ تھوڑا تھوڑا کام کروائیں۔
💫 بچوں میں ذوقِ مطالعہ پروان چڑھانے کے لیے اچھی اچھی کتب اور رسائل پڑھنے کو فراہم کریں۔ بچوں کو کہانی سننا اچھا لگتا ہے۔ لہٰذا والدین دلچسپ انداز میں بچوں کو کہانی سنائیں۔ ان کے ساتھ بیٹھ کر کہانی پڑھیں پھر اس پر بات چیت کریں۔
💫 بچوں میں مطالعے کا ذوق بڑھانے کے لیے والدین انہیں اچھی لائبریری کا تعارف کروائیں اور معیاری کتب منتخب کر کے انہیں فراہم کریں اس طرح اسلامی لٹریچر اور علم کی ایک وسیع دنیا تک ان کی رسائی ہو سکتی ہے۔
💫 گھر میں اگر لان یا کیاری کی جگہ ہو تو بچوں کو پودے اُگانے اور ان کی نگہداشت کرنا سکھائیں۔
💫بچوں کی ضروریات ہی پورا کرنا کافی نہیں ہے بلکہ انہیں وقت اور توجہ کی ضرورت بھی ہوتی ہے لہٰذا والدین اپنی مصروفیات میں سے بچوں کے لیے وقت متعین کریں یہ بچوں کا حق ہے جو اُنہیں ملنا چاہیے۔ والدین کی شفقت سے محرومی کے نتیجے میں بچے احساسِ محرومی کا شکار ہو جاتے ہیں۔
💫۔ والدین بچوں کے دوستوں کو گھر بلوائیں، ان کی عزت کریں، انہیں توجہ دیں تاکہ ان کا اعتماد بڑھے۔ بچوں کے دوستوں کے گھر والوں سے بھی تعلقات بہتر رکھیں۔ اگر والدین ان کے گھر کے ماحول سے مطمئن نہیں تو بچے کو بُرا بھلا نہ کہیں بلکہ حکمت و تدبر سے کام لیں تاکہ والدین اور بچوں کے درمیان اعتماد کے رشتے کو ٹھیس نہ پہنچے۔
💫 ہفتے میں چند احادیث بچوں کو ضرور یاد کروائیں۔ الله تعالیٰ کی طرف سے انعامات اور محبت کے مظاہر یاد کرواتے رہیں تو بہترین نتائج حاصل ہو سکتے ہیں۔
💫والدین اپنی نگرانی اور توجہ سے بچوں کو یہ احساس دلائیں کہ وہ گھر میں اپنے چھوٹے بہن بھائیوںکے لیے راعی (نگہبان) ہیں۔ لہٰذا انہیں اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کے ساتھ شفقت و محبت اور تحمل و بردباری سے کام لینا چاہیے۔
💫۔ لڑکوں کو باجماعت نماز کی عادت پختہ کروانا والد کا فرض ہے۔ گھر میں فیملی کے ساتھ بھی کبھی کبھار باجماعت نماز ادا کی جا سکتی ہے اس طرح چھوٹے لڑکوں کو امامت کے آداب سکھائے جا سکتے ہیں۔
💫۔ جمعہ کے دن کو خاص اہمیت دی جائے والدین سب بچوں کے ساتھ مل کر سورۂ الکہف کی تلاوت کر کے سعادت و برکت حاصل کریں۔ ہر فرد ایک رکوع کی تلاوت کر کے ثواب میں حصہ دار ہو سکتا ہے۔ والد لڑکوں کو جمعہ کی جماعت کے لیے مسجد میں لے جائے اس سے جمعہ کی تربیتی اہمیت بھی اُجاگر ہو گی اور دین کا فہم اور فکری غذا بھی میسر آئے گی نیز ایک تسلسل سے ہفتہ وار تربیت کا عمل جاری رہے گا۔
💫 بچوں کے ساتھ صبح یا شام جیسے ممکن ہو کسی پارک میں، نہر کے کنارے یا ساحل سمندر پر پیدل چلنے کی عادت ڈالی جائے۔ فجر کے بعد کھلی فضا میں چہل قدمی کا لطف اُٹھانا حسن خالق کائنات کے قریب کرنے کا موجب ہو گا۔ نیز بچوں میں کائنات پر غور و فکر کی سوچ پیدا کریں۔
💫 چھٹیوں میں والدین بچوں کو مختلف ہنر سکھا سکتے ہیں۔ مثلاً خوش خطی، مضمون نویسی، تجوید، آرٹ کے کام، بچیوں کو سلائی کڑھائی، کپڑوں کی مرمت، مہندی کے ڈیزائن وغیرہ۔ والدین اپنے تجربات و مشاہدات کو آپس میں زیر بحث لا سکتے ہیں۔
💫بچوں کی تربیت اور کھانے کے عمل میں ماحول بہت اہمیت کا حامل ہے۔ تزکیہ و تربیت میں دعوتِ دین کی سرگرمیاں بہت اہمیت رکھتی ہیں۔ والدین اگر بچوں کے ساتھ دروس قرآن میں شرکت، دوست احباب کو دعوت دینے، لٹریچر تقسیم کرنے، خدمتِ خلق کے تحت مستحق افراد کی مدد کرنے اور امدادی سرگرمیوں میں حصہ لینے کو اپنا معمول بنا لیں تو یہ عمل بغیر کسی نصیحت اورتلقین کے بچوں کو خود بخود سکھانے کا ذریعہ بن جائے گا۔
الغرض فرصت کے لمحات خصوصاً تعطیلات میں بچوں کی تربیت کے پیش نظر انہیں توجہ دینا ان کا بنیادی حق اور تربیت کا ناگزیر تقاضا ہے۔ دو اڑھائی ماہ کی طویل چھٹیوں میں والدین بچوں کے لیے مذکورہ بالا نکات پر عمل کر کے ان کی بہترین انداز میں تربیت کر سکتے ہیں۔
تعلیم و تربیت
⭐ بچے اپنا گھر کا کام کس طرح بہتر انداز میں کر سکتے ہیں:-
💫۔ روز مرہ کے ایک جیسے اور آسان ہوم ورک کو (مثلاً محض سوالات جوابات کاپی پر اُتارنا) اسکول کے خالی پیریڈز اور ہاف ٹائم میں کر لیں۔
💫 اسی طرح کچھ آسان کام دورانِ سفر سکول سے گھر آتے ہوئے یا ٹی وی دیکھتے ہوئے بھی کرسکتے ہیں۔
💫۔ زیادہ مشکل یا یاد کرنے والا کام گھر جا کر آرام سے کریں۔
💫 بچوں کا لکھنے کا کام زیادہ ہوتا ہے جسے بعد میں یاد کرنا بچوں کے لیے مشکل ہوجاتا ہے۔ ایسی صورت میں بچوں کو چاہیے کہ جو کچھ وہ لکھیں اسے اچھی طرح سمجھ کر لکھیں تاکہ جب بعد میں وہ اس کام کو یاد کریں تو جلدی اور آسانی سے انہیں یاد ہو جائے۔
تعلیم و تربیت
⭐ بچوں کی بہتر تعلیمی قابلیت کے لیے والدین کی بے جا سختی فائدہ مند ہوتی ہے یا نقصان دہ:-
💫بعض مائیں بچوں کی تعلیم کے سلسلے میں جنونی ہو جاتی ہیں اور ان کا رویہ بچوں کے ساتھ تکلیف دہ ہو جاتا ہے، ان کی شدت پسندی کے پیچھے مختلف عوامل کار فرما ہوتے ہیں۔ مشترکہ خاندانی سسٹم کی صورت میں گھر میں رہنے والی دیگر خواتین کے بچے کے ساتھ اپنے بچے کی پڑھائی میں مقابلہ یا پڑوس کے بچوں کے ساتھ پوزیشنز میں مقابلے کی فضاء قائم ہو جاتی ہے اور اگر بچے ایک ہی کلاس میں ہوں اور قریب رہنے کی وجہ سے ایک ہی اسکول میں جاتے ہوں تو مقابلے کی فضا مزید بڑھ جاتی ہے۔ یہ مقابلہ جب تک مثبت عوامل پر مشتمل رہے، اچھے طریقے سے چلتا ہے۔ لیکن جب حد سے تجاوز کر جائے تو بچے کی شخصیت پر منفی اثرات ڈالتا ہے۔ کیونکہ کلاس میں پہلی پوزیشن لینا بچے سے زیادہ ماں کے لیے باعث فخر ہوتا ہے۔ جب بچے کے امتحانات شروع ہوتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ ماں کے بھی امتحانات شروع ہو چکے ہیں اس دوران ماں بچے کا جینا دوبھر کر دیتی ہے اور اسے مختلف دھمکیاں دیتی ہے کہ تم نے کلاس میں پوزیشن لینی ہے یا اگر کلاس میں پہلی پوزیشن نہ لی تو آپ کے پاپا آپ کی پٹائی کریں گے۔ ماں بچے پر ہر طرح سے دباؤ ڈالتی ہے جس کی وجہ سے بچہ پڑھائی سے گھبرا جاتا ہے۔ وہ سنجیدہ اور خوفزدہ نظر آنے لگتا ہے۔
💫بعض اوقات بچے کے ساتھ ماں کا رویہ اس حد تک تکلیف دہ ہو جاتا ہے کہ پوزیشن نہ لینے یا کم نمبر لانے پر وہ بچے کو سزا دیتی ہے۔ اسے برا بھلا کہنے لگتی ہے جس کی وجہ سے بچہ بہت اذیت محسوس کرتا ہے۔ ماں کے اس ہتک آمیز رویے سے اس میں بیزاری اور چڑ چڑا پن پیدا ہو جاتا ہے۔ پھر اُس سے یہ اُمید رکھنا کہ وہ ہمیشہ ہی پوزیشن لے یہ اس کے ساتھ زیادتی ہے۔ اس کی بجائے ماں پڑھائی میں بچے کی قابلیت بہتر بنانے کے لیے سختی کی بجائے پیار سے اس کی مدد کرے تاکہ وہ تعلیم میں اپنی دلچسپی ظاہر کرتے ہوئے اچھی کارکردگی دکھائے
تعلیم و تربیت
⭐بچے کی بہتر تعلیمی کارکردگی کے لیے ماں کن اُمور کو پیش نظر رکھے:-
💫 ماں بچے کی تعلیمی سرگرمیوں پر مکمل توجہ دے۔ ساری ذمہ داری اسکول یا اُستاد پر نہ ڈالے، بچے کی ڈائری روزانہ چیک کرے اور بچے کے کیے ہوئے ہوم ورک پر نظر ثانی ضرور کرے۔ اس سے ماں کے علم میں ہوگا کہ بچے کو کس طرح سے کام کروایا جاتا ہے تاکہ وہ جب بچے کو امتحان کی تیاری کروائے تو سارا نصاب اُسے سمجھ میں آجائے۔
💫۔ ماں بچے کو شروع سے ہیپڑھنے اور لکھنے کی عادت ڈالے۔ اس سے بچے کو پڑھنے اور لکھنے میں ہجوں، جملوں اور لفظوں کی پہچان ہوتی ہے۔ بچے کے تلفظ کی درستگی پر شروع سے توجہ دی جائے کیونکہ بچپن میں سیکھی ہوئی باتیں تا عمر یاد رہتی ہیں۔
💫۔ ماں بچے کو روزانہ کا سبق بار بار یاد کروا کے اچھی طرح ذہن شین کرائے، اِس سے دہرانے کا عمل جاری رہے گا، اور ہر بات اچھی طرح ذہن نشین ہوتی جائے گی، کیونکہ اگر کوئی بچہ مطالعے کے بعد اس کو دہراتا نہیں تو اس کی یاداشت اتنی موثر نہیں ہوگی جتنی دہرانے کے عمل سے ہوتی ہے۔
💫۔ ماں کو چاہیے کہ وہ بچے کے سبق میں سے مختلف سوالات پوچھے اور بچے کو بھی اس بات کی ترغیب دلائے کہ جو سوالات اسے نہیں آتے وہ ماں سے پوچھا کرے، تاکہ جس چیز کی اسے سمجھ نہیں آ رہی ماں اسے وہ چیز سمجھا دے اور ذہن میں لگی گرہیں خود بخود کھل جائیں۔
💫۔ ماں کو چاہیے کہ بچے کے کلاس ورک پر روزانہ نظر رکھے تاکہ اسے علم ہو سکے کہ اس کا بچہ تعلیمی معیار کے حوالے سے کس درجے پر ہے۔
💫امتحانات سے پندرہ دن قبل ماں بچے کی تمام کاپیاں اچھی طرح چیک کرے اور پھر نصاب سے ملائے۔ اگر امتحان کے حوالے سے کوئی کام اہمیت رکھتا ہو اور نا مکمل ہو تو ماں استاد کے تعاون سے مکمل کروا لے تاکہ امتحانات میں بچے کو کسی قسم کے مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
اردو ہے جس کا نام
گاٶں میں ایک غریب آدمی رہتا تھا ۔اس کا نام "لفظ" تھا۔ اس کے دو بھائی تھے ۔
ایک کا نام موضوع اور دوسرے کا نام مہمل ۔
موضوع بہت ہوشیار لڑکا تھا۔ ہر چیز کا معنی بتاتا ۔ سمجھ میں آجاتا تھا۔
اور مہمل ، وہ تو پاگل تھا۔ہر چیز الٹی بتاتا، جس کا کوئی مطلب نہ نکلتا ۔
موضوع کے دو بیٹے تھے ۔
ایک کا نام مفرد تھا ، دوسرے کا نام مرکب۔ مفرد اکیلا اکیلا پھرتا تھا جب کہ مرکب سب کے ساتھ مل کر چلتا تھا ۔
مرکب کے بھی دو دوست تھے۔ ایک کا نام مرکب ناقص ، دوسرے کا نام مرکب تام تھا۔
مرکب ناقص بڑا نالائق لڑکا تھا۔ ہمیشہ ادھوری بات کرتا۔ کسی کی سمجھ میں اس کی کوئی بات نہیں آتی تھی ۔
مرکب تام بھائی بہت اچھا لڑکا تھا ایسی صاف بات کرتا کہ پاگل بھی سمجھ جاتا۔ وہ ہر چیز کی خبر دیتا۔ سچ میں جھوٹ ملا کر بات کرتا۔ اس لیے وہ خود کو وزیر نحو کہا کرتا۔
پھر یوں ہوا کہ اچانک گاؤں میں ایک یتیم لڑکا آگیا, جس کا نام "کلمہ" تھا , جس کے ساتھ تین لوگ اور بھی تھے .
ان کا نام اسم، فعل، اور حرف تھا۔
اسم بیچارہ , بہت امیر تھا ،اپنا سب کام خود کرتا۔ کسی سے کچھ مدد نہ لیتا۔
فعل ہمیشہ کنجوسی سے اپنا کام خود کرتا۔ دوسروں کو بھی لے کر آتا ۔اکیلا آتے ہوئے ڈرتا کہ کہیں کوئی کام غلط نہ ہو جائے۔
حرف بہت غریب تھا۔ نہ کھانے کےلیے کچھ اور نہ پہننے پہنانے کے لیے۔
کچھ اسم سے ، کچھ فعل سے مدد لےکر اپنی گزر اوقات کرلیتا ، لیکن بعض اوقات ایسے کرتب دکھاتا کہ سارے گاؤں والے عش عش کر اٹھتے۔
لبھائی اسم کی دو بیویاں تھیں۔
اک کا نام معرفہ تھا۔ دوسری کا نام نکرہ۔
معرفہ آنٹی ہمیشہ خود کو خاص سمجھتی تھیں۔مشہور و معروف تھیں۔ سب انہیں جانتے تھے۔
نکرہ آنٹی بہت سادہ سی رہتیں۔عام سی خاتون تھیں۔ انکساری اتنی کہ خود کو کچھ نہیں سمجھتیں۔
آنٹی معرفہ کے سات بچے تھے۔
تین لڑکیاں اور چار لڑکے۔
بچوں کے نام تھے ، ضمیر، علَم ، اشارہ ، موصول ، معرٗف باللام، معرف بالاضافة ، معرف بالنداء.
بھائی ضمیر ، وہ تو بس سارا دن ہی ،تو تو ، میں میں ، وہ وہ کرتا رہتا۔
بھائی علَم ، اپنے آپ کو خاص سمجھتا۔ اپنے خاص نام پر فخر جتاتا۔
کہتا : میرے جیسا کوئی نہیں۔
بھائی اشارہ ، وہ تو بس دوسروں پر بلا وجہ انگلی اٹھا اٹھا کر الزام تراشی کرتا رہتا ۔ اس کے بغیر اسے سکون ہی نہیں ملتا۔
بھائی موصول، ہمیشہ اپنے دوست کے ساتھ مل کر کام کرتا۔
معرف باللام بہن ، محترمہ اتنی نخریلی ہیں کہ بس ان کی ہمیشہ گھر میں لڑائی ہی رہتی ہے۔ ضد ہے کہ میرے شروع میں الف لام لگاؤ کیوں کہ وہ میری تب جان ہے۔
معرف بالاضافة بہن ، بہت ہوشیار لڑکی ہے ، اپنے خاص نام کو اپنے خاص پسندیدہ کھانے سے جوڑتی ہے تاکہ کوئی کھا نہ جاۓ۔
معرف بالنداء بہن ، بہت ضدی لڑکی ہے۔ اس سے سب بہت تنگ ہیں۔ کہتی ہے: میں اپنا کام سب کچھ خود کروں گی۔ کسی کو ٹانگ اڑانے کی ضرورت نہیں۔
ندا بہن کے دو پکے دوست تھے۔
ایک کا نام مذکر ، دوسرے کا نام مونث تھا۔
مذکر میں لڑکی کی کوئی علامت نہ تھی۔
کہتا : میں میل ہوں۔میں لڑکا ہوں۔
مؤنث کہتی : میں لڑکی ہوں۔ مجھے کبھی کوئی غلطی سے بھی لڑکا نہ کہنا۔ میں بہت خطرناک ہوں۔
مؤنث کی 3 بیٹیاں ہیں۔
جن کے نام
گول ة ، الف مقصورہ اور الف ممدودہ ہیں۔
گول ة بہن، ایک ضدی لڑکی ہے ، جو کہتی ہے میری خوب صورت چاند سی گول شکل کبھی نہ بگاڑنا۔
الف ممدودہ بہن ، اونچی پوری دراز قد ہمدرد لڑکی ہے ، تنہا باہر نہیں نکلتی۔ باجی ھمزہ کو بھی اپنے ساتھ لیکر آتی ہے۔ خوش گلو اور بلند آہنگ ہے۔
الف مقصورہ بہن،
توبہ توبہ وہ تو باجی ھمزہ سے حسد کرتی ہے۔ ساتھ تو دور کی بات ہے ، کبھی اپنے پاس بھی نہیں بٹھاتی۔
مؤنث کے دو سہیلیاں ہیں۔
ایک کا نام آنٹی مؤنث حقیقی تو دوسری کا نام آنٹی مؤنث لفظی ہے۔
آنٹی مؤنث حقیقی ہمیشہ اپنا مقابلہ مرد کے ساتھ کرتی ہیں۔
آنٹی مؤنث لفظی ، بہت نرم و نازک ہیں۔ لو بلڈ پریشر LOW BP کی مریضہ ہیں۔ یہی وجہ ہے وہ مرد کے ساتھ مقابلہ نہیں کر سکتیں۔ اسی لیے آنٹی مونث حقیقی ، اسے چھوڑ کر واحد کے گھر چلی گئیں۔
واحد ہمیشہ اکیلا رہتا۔اس کا کوئی ساتھ نہیں دیتا تھا۔
واحد کے دو بھائی ہیں۔ ایک کا نام تثنیہ بھائی ہے، دوست مثنی بھائی کہتے ہیں۔
دوسرےکا نام جمع بھائی ہے۔
بھائی مثنی کہتے ہیں: میں تو صرف دو کے ساتھ رہوں گا۔ کسی تیسرے کے ساتھ مجھےکبھی گوارا نہیں۔
بھائی جمع توبہ توبہ !
وہ تو سارا دن دوست بناتا رہتا ہے۔کم از کم تین ہمیشہ ساتھ رہتے ہیں۔ جمع سے گھر والے تنگ ہیں۔ جمع بیچارے کو گھر سے نکال دیا گیا ، وہ اپنے دوست جمع سالم اور جمع مکسر کے پاس گیا۔
جمع سالم ، ہمدرد انسان ہیں شریف ۔کسی کو نہیں چھیڑتے۔اپنی پیٹھ پر اون ، این ، آت کا بوجھ لاد لیتے ہیں۔
لیکن جمع مکسر ضدی بھی ہیں اور شعلہ مزاج بھی۔ پیسے نہیں ملتے ، یا کھانا نہیں ملتا تو گھر کے سامان کی توڑ پھوڑ شروع کر دیتے ہیں۔ کوئی ڈانٹے تو کہتے ہیں : میں جدت پسند ہوں۔ نئی نئی چیزیں بناتا ہوں۔۔
Career Exploration for Students: Finding Your Passion
Career Exploration for Students: Finding Your Passion Discovering your career passion can be a game-changer for students. Here are some tip...
-
کیا آپ ان سات سوالوں کے جواب جانتے ہیں ؟ ۔۔۔ سوال نمبر ۔1: جنت کہاں ہے؟ جواب: جنت ساتوں آسمانوں کے اوپر ساتوں آسمانوں سے جدا ہے، کیونکہ سات...
-
تعلیمی مقاصد کے حصول کے لیے استاد کودرج ذیل باتوں کا خیال رکھنا چاہیے:_ تعلیمی نظام میں استاد کا کردار اعلیٰ درجے کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ ملت ...
-
غیر موزوں نصاب تعلیم اور تدریس کے بچوں کے ذہن پر اثرات 💫 غیرموزوں نصاب تعلیم اور تدریس بچوں کی ذہنی صحت بگاڑنے کا سبب بنتے ہیں۔ اس سے بچ...