تعلیم اورتربیت
عام طور پر تعلیم وتربیت کے یہ دولفظ ایک ساتھ استعمال ہوتے ہیں ۔جس کی وجہ سےعموما ان دونوں میں فرق کو پیش نظر نہیں رکھا جاتا۔ دوسری وجہ یہ ہے۔ کہ یہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ لازم وملزوم بھی ہیں۔ یعنی تعلیم ،تربیت کے بغیر کامل نہیں ہوسکتی ۔اور تربیت تعلیم کے بغیر ممکن نہیں ہوسکتی۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں موجودہ تعلیمی نظام میں ان دونوں کو الگ کیا گیا ہے
تعلیم اورتربیت میں بنیادی فرق کیا ہے
تعلیم
اگرہم تعلیم کو سمجھنے کی کوشش کریں، توتعلیم دراصل سیکھنے سکھانے کا ایک عمل ہے۔ جس سے بچے علم، ہنر، اقدار، عقائد اور عادا ت کو سیکھ سکتے ہیں۔
ماہر تعلیم کے مطابق تعلیم کے مقاصد میں عقل وشعور کو فروغ دینا اورمعاشرتی ضروریات کی تکمیل کرنا ہے ۔ اس کا ایک اور مقصد بچوں کو معاشی سرگرمیوں میں شراکت کے قابل بناناہے۔ نیز طلبا کو ملازمت کے لئے تیار کرنے کے علاوہ ان کو خاص کیریئر ، خاص معاشرتی، معاشی یا سیاسی
دینی تناظر میں تعلیم کا مقصد
دین میں تعلیم کا بنیادی مقصد خدا کی معرفت اور تہذیب نفس ہے۔دوسرے الفاظ میں بامعنی اور بامقصد زندگی گزارنے کے قابل ہونا ہے۔دین یہ کہتاہے کہ تم تعلیم اس لئے حاصل کرو تاکہ تم اللہ کو پہچانو ۔اس کی ذات اور صفات کو نہ صرف پہچانو ۔بلکہ اس پر ایمان بھی اس انداز سے لے آو جو اس کا حق ہے۔ باقی ثانوی مقاصد کئی ہوسکتے ہیں۔ مثلا یہ کہ ہمیں دنیا میں رہنا ہےتو تعلیم کے ذریعے اپنے شعورکو پروان چڑھانا ہے ۔ یہاں کی معاشرت کے کیاتقاضے ہیں؟ اس کی معیشت کے کیا تقاضے ہیں؟یہاں رہتے ہوئے خالق اور مخلوق سے تعلقات میں کیسے توازن رکھنا ہے۔ خالق اور مخلوق کے حقو ق کیسے اداکرنے ہیں؟ دنیا میں رہتے ہوئے رزق کمانے کے کونسے کونسے ذرائع ہیں؟ وغیرہ وغیرہ
۔
تربیت کیا ہے؟
تربیت کا لفظ عربی زبان سے آیا ہے جس کا مادہ (ر ب ی)ہے۔ عربی میں ربی یربی اور مصدر تربیۃ کے معنی بچہ کی پرورش کرنے، پالنے اورمہذب بنانے کے آتے ہیں ۔ تربیت درحقیقت وہ فن ہے جسے انسان سازی کا فن بھی کہا جاتا ہے۔انسان دوعناصر کا مجموعہ ہے ۔ایک ظاہری جسم جو انسان کے علاوہ ہردوسری مخلوق کے پاس بھی ہوتاہے۔ جبکہ انسانی ترکیب کا دوسرا اہم عنصر اس کے اخلاق وعادات، مہارتیں،اعمال وکردار، اس کی سوچ وافکار اور مجموعی رویے ہوتے ہیں جو اسے اخلاقی وجود عطا کرتے ہیں۔
انسان کی فطرت میں حق کی پہچان قدرت کی طرف سے پیدائش کے وقت سے ہی ودیعت کی جاتیلیکن اگر فطری ماحول کو والدین یا معاشرے کی طرف سے مکدر بنادیا جائے۔ فطرت کی پہچان کے آگے بند باندھ دیا جائے۔ یا اس سے پیٹھ پھیرنے پر مجبور کردیا جائے ۔تو پھر بچے کے لئے حق کی پہچان مشکل ہوجاتی ہے۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: کل مولودیولد علی الفطرۃ فابواہ یہودانہ او ینصرانہ او یمجسانہ (۲) “ہر بچہ اللہ کی طرف سے فطرت(اسلام) پر پیدا کیا جاتا ہے۔لیکن اس کے والدین اسے یہودی بنادیتے ہیں نصرانی یا مجوسی بنادیتے ہیں
وقت قدرت کی طرف سے اچھائی اور برائی دونوں کی فطری استعداد لے کر پیدا ہوتا ہے۔ قرآن کریم نے اسی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: فالھمھا فجورھا وتقواھا (۳) پس انسان کے نفس میں گناہ اور نیکی کی استعداد کو القاء کیا گیا۔یعنی انسان کواستطاعت اور اختیار عطا کیا گیا۔کہ وہ چاہے تو گناہ بھی کرسکتا ہے اورچاہے نیکی کا راستہ بھی اختیار کرسکتا ہے۔
تربیہ کا ایک اہم مقصد
تعلیم وتربیت میں فرق کا حاصل یہ ہوا ۔کہ تعلیم انسانی فہم اورشعور کی سطح کی چیز ہے۔ جس سے انسان اچھائی کو اچھا اور برائی کو برا جان سکتاہے۔ یعنی اس چیزکی اچھائی یابرائی محض اس کے علم میں آتی ہے۔ جبکہ تربیت اس سے آگے کی سطح کی چیز ہے ۔جس میں شعوری علم اس کے مزاج کاحصہ بن جاتا ہے۔ جس کے نتیجے میں اچھائی اس کو اچھی لگنے لگتی ہے۔ اور برائی اسے بری لگنے لگتی ہے۔یعنی اس کامزاج اور اسکی طبیعت اس علم کے مطابق ڈھل جاتی ہے
تعلیم وتربیت پر چند اشعار
آدمیت اور شے ہے علم ہے کچھ اور شے
کتنا طوطے کو پڑھایا پر وہ حیواں ہی رہا
شیخ ابراہیم ذوقؔ
خشت اول جوں نہد معمار کج
تاثریا می نہد دیوار کج
’’اگر معمار پہلی اینٹ غلط اور ٹیڑھی رکھ دے تو دیوار کو بلندی تک ٹیڑھا ہونے سے کیسے روکا جا سکے گا‘‘
نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب حاضرکی
یہ ضاعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے
علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ اپنے ایک انگریزی مضمون جس کا عنوان Political Thoughts in Islam ہے میں بجاطور پر فرماتے ہیں۔ ’’ہمیں صرف اس بات کا ڈر ہے کہ کہیں یورپی کلچر کی آنکھوں کو خیرہ کرنے والی چمک دمک ہماری ترقی کے راستے میں حائل ہو کر ہمیں اپنے کلچر کے حقیقی تصور تک پہنچنے میں ناکام نہ کر دے۔ وہ اس بات پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں کہ صدیوں سے ہمارا مذہبی فکر جامد اور بے نمو ہو گیا اور مسلمان نئی نسل، نئے زمانے کے تقاضوں کو پورا کرنے سے غفلت برت رہے ہیں، وہ مغربی فکر اور اور عملی کمالات کے اچھے پہلوؤں کی تحسین کرتے ہیں مگر اس کی ظاہری حالت کو جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری سے تعبیر کرتے ہیں، لیکن اہل مغرب کی علم جوئی، تحقق پسندی، سائنسی ترقی، تسخیر کائنات اور جہاں بینی کی تعریف کرتے ہیں اس سلسلے میں ان کے یہ دو اشعار مسلمان نوجوانوں کے لئے لمحہ فکریہ ہیں۔ فرماتے ہیں۔
خودی کی موت سے مشرق کی سر زمینوں میں
ہوا نہ کوئی خدائی کا راز داں پیدا
نظر آتے نہیں بے پردہ حقائق ان کو
آنکھ حق کی ہوئی محکمومی و تقلید سے کور
دوسرے شعر میں علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے اس بات کا شکوہ کیا ہے کہ افسوس عصرحاضر کے مسلمانوں کی فکر اس قدر جامد ہو گئی ہے کہ انہیں اپنے آباؤ اجداد کے شاندار ماضی کے حقائق سے بھی آگاہی نہیں اور محکومی و تقلید نے ان کے جوہر عمل کو کند کر کے رکھ دیا ہے۔
علامہ نوجوان نسل کو اپنی ملّت کا مستقبل تصور کرتے تھے۔ وہ ان نوجوانوں کی تربیت ان میں ایمانی جذبہ اور دینی بصیرت پیدا کر کے اس نہج پر کرنا چاہتے تھے کہ وہ صحیح معنوں میں قوم کے معمار بن سکیں۔ قرآن حکیم سے انہیں جو شغف تھا وہ کسی صاحب نظر سے پوشیدہ نہیں۔ اسی طرح حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات سے انہیں جو والہانہ محبت اور شیفتگی تھی اس کا اظہار ان کی شاعری اور نثری تحریروں
جابجا ہوتا ہے۔ وہ یہی جذبہ اور ذوق و شوق نوجوانوں کی رگ و پے میں اتارنا چاہتے ہیں چنانچہ ان کی زندگیوں کو قرآن و سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات سے آراستہ و پیراستہ کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور پکار اٹھتے ہیں۔
جوانوں کو مری آہ و سحر دے
پھر ان شاہین بچوں کو بال و پردے
خدایا آرزو میری یہی ہے
مرا نورِ بصیرت عام کر دے
بچوں کی تعلیم و تربیت میں سکول کیا کردار ادا کرتا ہے؟
جواب: ہر بچہ مختلف فطری صلاحیتوں کا مالک ہوتا ہے، لیکن ان فطری صلاحیتوں کی تکمیل اور جلا کے لیے رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس کے لیے معاشرے میں سکول کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا جاتا ہے جہاں بچہ معاشرتی مطابقت پیدا کرنے اور اپنے آپ کو سماجی ضروریات کے مطابق ڈھالنے کے لیے اپنی خصوصیات اور صلاحیتوں کو ترقی دیتا ہے۔
اگرچہ سکول کا سارا انتظام و انصرام ہی بچے کے لیے مددگار ہوتا ہے، لیکن اس کے لیے اہم پلیٹ فارم کلاس روم ہے جہاں بچہ تعلیمی سرگرمیوں کے ذریعے ذہنی نشو و نما کے عمل سے گزرتا ہے۔ استاد ہر بچے کی مقیاسِ ذہانت (IQ Level) کی سطح اور اس کے رحجانات و میلانات کا لحاظ رکھتے ہوئے راہنمائی فراہم کرتا ہے۔ مؤثر تدریس کے لیے کلاس روم کے ماحول کا سازگار ہونا ضروری ہے، کیونکہ دورانِ تدریس کلاس روم میں مختلف واقعات وقوع پذیر ہوتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے بعض اوقات کلاس روم کا ماحول پیچیدہ بھی ہوسکتا ہے۔ لہٰذا استاد کو کوئی ایسا جارحانہ رویہ اختیار نہیں کرنا چاہیے اور نہ ہی کوئی ایسا قانون وضع نہیں کرنا چاہیے جو طلباء کو تعلیمی عمل سے بغاوت پر اُکسائے۔
اولاد کی تربیت میں والدین کا کردار
اولاد کو دینی تعلیم سے آراستہ کرنا اور اسلامی نہج پر ان کی تربیت کرنا یہ وقت کا اہم ترین تقاضہ ہے،اس میں ذرہ برابر بھی کوتاہی بہت بڑے نقصان کا باعث ہوسکتی ہے،والدین کی ذمہ داری ہے کہ اپنے اندر احساس ذمہ داری پیدا کریں،بچوں کے مستقبل کوتباہ ہونے سے بچالیں،ہر آن ،ہر لمحہ اپنی اولاد کی جانب تربیت کی نگاہ رکھیں،لایعنی اولاد کی تعلیم و تربیت میں کوتاہی آخرت میں مواخذہ کاسبب بن سکتی ہے، اسی لیےاللہ تعالٰی اہل ایمان سے خطاب کرکے فرماتا ہے:اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل عیال کو جہنم کی آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن لوگ اور پتھر ہیں اس پر سخت اور طاقتور فرشتے مقرر ہیں جو اللہ کی نافرمانی نہیں کرتے انہیں جو حکم دیا جائے وہ کر گزرتے ہیں (التحریم :6)۔ نار جہنم سے بچنے کی فکر جس طرح خود کو کرنی ہے اسی طرح والدین کی یہ اہم ذمہ داری ہے کے وہ اپنی والاد کی بچپن سے ایسی تربیت کریں کے ان میں دینی شعور پختہ ہو اور بڑے ہوکر وہ زندگی کے جس میدان میں بھی رہیں ایمان وعمل صالح سے ان کا رشتہ نہ صرف قائم بلکہ مضبوط رہے۔
حضرت علی کرم الله وجہہ سے منقول ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:” اپنے بچوں کو تین باتیں سکھاؤ، اپنے نبی کی محبت اور ان کے اہل بیت سے محبت اور قرآن مجید کی تلاوت، اس لیے کہ قرآن کریم یاد کرنے والے الله کے عرش کے سایہ میں انبیاء کے ساتھ اس دن میں ہوں گے جس دن اس کے سایہ کے علاوہ اور کوئی سایہ نہ ہو گا۔ “(طبرانی)
اس حدیث پاک میں جنابِ رسول کریم صلی الله علیہ وسلم بچوں کی بہترین تربیت کے حوالہ سے بہترین راہ نمائی فرما دی کہ نبی ﷺ سےمحبت کرنا، ان کے اہل بیت، صحابہ کرام رضوان الله علیہم اجمعین سے محبت کرنا بچوں کو سکھایا جائے اور قرآن کریم کی تلاوت کرنے کی تلقین کی جائے۔ والدین کی طرف سے اپنی اولاد کو بہترین تحفہ وہ قرآنی تعلیم ہے۔ آج ہم اپنی اولاد کے لیے روپیہ، پیسہ اور طرح طرح کی جائیداد، پراپرٹی جمع کرتے تھکتے نہیں کہ یہ چیزیں ہمارے بعد ہماری اولاد کے لیے فائدہ مند ہوں، لیکن ان کی دینی علوم کی پیاس بجھانے کی ہم ذرا فکر نہیں کرتے، حالاں کہ جائیداد اور مال ودولت سے صرف دنیاوی حاجات کاتکفل ہوتاہے، جب کہ قرآن وحدیث اور دینی تعلیم تو دنیا وآخرت دونوں میں کام آتی ہے۔
"اولاد”اللہ تعالیٰ کی بیش بہا نعمت اوروالدین کےلیےمستقبل کا قیمتی اثاثہ ہے؛یہی وجہ ہے کہ ان کے وجود کو دنیاوی زندگی میں زینت اور رونق سے تعبیرکیاجاتاہے؛لیکن یہ (اولاد)رونق وبہار اور زینت وکمال کاسبب اسی وقت بنتی ہے جب انہیں زیورتعلیم سے آراستہ کیا جاتاہے، بچپن ہی سے ان کی صحیح نشوونما کا خیال رکھاجاتاہے، ان کی دینی تربیت وپرداخت کو ضروری سمجھاجاتاہے، نیز اسلامی وایمانی ماحول میں انہیں پروان چڑھانےکا اہتمام کیاجاتاہے۔ شریعت مطہرہ کی رو سے والدین پر اولاد کےسلسلہ میں جو حقوق عائد ہوتے ہیں ان میں سب سے اہم اور مقدم حق اُن کی دینی تعلیم وتربیت ہی ہے۔ اسلام عصری تعلیم کا ہرگز مخالف نہیں ؛لیکن دین کی بنیادی تعلیم کا حُصول اور اسلام کے مبادیات وارکان کا جاننا تو ہر مسلمان پر فرض ہے اور اسی پر اخروی فلاح وکامیابی کا دار و مدار ہے۔
دین وایمان کا تحفظ اسی وقت ممکن ہے جب اس کے متاع گراں مایہ ہونے کا احساس دل میں جاگزیں ہو، اگر کوئی دین وایمان کو معمولی چیز سمجھتاہے تو پھر اس سے خاتمہ بالخیر کی توقع رکھنا بھی مشکل ہے۔ اس کا اندازہ اس ایک واقعہ سے لگایاجاسکتاہے جسے قرآن مجید کی سورت البقرۃ میں ذکرکیاگیا:
حضرت یعقوب علیہ السلام جب بسترِ مرگ پر آخری سانسیں گن رہے تھے تو انہیں یہ فکر بار بار ستائے جارہی تھی کہ میری اولاد میرے بعد کس کی عبادت کرے گی؟بالآخر انہوں نے اپنی اولاد کو بلا کر یہ سوال کیا کہ میرے بعد تمہارا معبود کون ہوگا؟۔ بیٹوں نے اطمینان دلاتے ہوئےکہا کہ ہم آپ کی موجودگی جس طرح دین برحق پر قائم رہے اور اپنے آباء واجداد سیدنا ابراہیم ؑ و اسماعیل ؑ اور اسحق کے پرودگار کی عبادت کرتے رہے اسی طرح آپ کے بعد بھی ہم اسی رب العالمین کی بندگی کریں گے جس کی تعلیم وتلقین ہمارے بڑوں نے فرمائی ہے۔ قرآن میں اس طرح اس کی منظر کشی کی گئی:کیا تم اس وقت موجود تھے جب یعقوب کی موت کا وقت آیا تھا، جب انہوں نے اپنے بیٹوں سے کہا تھا کہ تم میرے بعد کس کی عبادت کرو گے ؟ان سب نے کہا کہ ہم اسی ایک خداکی عبادت کریں گے جو آپ کا معبود ہے اور آپ کے با پ دادوں ابراہیم، اسماعیل اور اسحاق کا معبودہے، اور ہم صرف اسی کے فرماں بردار ہیں (البقرۃ :133)
یہاں یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہے کہ اولاد کی تعلیم و تربیت میں کوتاہی آخرت میں مواخذہ کاسبب بن سکتی ہے، اسی لیےاللہ تعالٰی اہل ایمان سے خطاب کرکے فرماتا ہے:اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل عیال کو جہنم کی آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن لوگ اور پتھر ہیں اس پر سخت اور طاقتور فرشتے مقرر ہیں جو اللہ کی نافرمانی نہیں کرتے انہیں جو حکم دیا جائے وہ کر گزرتے ہیں (التحریم :6)۔ نار جہنم سے بچنے کی فکر جس طرح خود کو کرنی ہے اسی طرح والدین کی یہ اہم ذمہ داری ہے کے وہ اپنی والاد کی بچپن سے ایسی تربیت کریں کے ان میں دینی شعور پختہ ہو اور بڑے ہوکر وہ زندگی کے جس میدان میں بھی رہیں ایمان وعمل صالح سے ان کا رشتہ نہ صرف قائم بلکہ مضبوط رہے۔
تربیت کی دوقسمیں
(۱)ظاہری تربیت
(۲)باطنی تربیت۔
ظاہری اعتبار سے تربیت میں اولاد کی ظاہری وضع قطع، لباس، کھانے، پینے، نشست وبرخاست، میل جول، اس کے دوست واحباب اور تعلقات و مشاغل کو نظر میں رکھنا، اس کے تعلیمی کوائف کی جانکاری اور بلوغت کے بعد ان کے ذرائع معاش کی نگرانی وغیرہ امور شامل ہیں، یہ تمام امور اولاد کی ظاہری تربیت میں داخل ہیں۔ اور باطنی تربیت سے مراد اُن کے عقیدہ اور اخلاق کی اصلاح ودرستگی ہے۔
اولاد کی ظاہری اور باطنی دونوں قسم کی تربیت والدین کے ذمہ فرض ہے۔ ماں باپ کے دل میں اپنی اولاد کے لیے بے حد رحمت وشفقت کا فطری جذبہ اور احساس پایا جاتا ہے۔ یہی پدری ومادری فطری جذبات واحساسات ہی ہیں جو بچوں کی دیکھ بھال، تربیت اور اُن کی ضروریات کی کفالت پر اُنھیں اُبھارتے ہیں۔ ماں باپ کے دل میں یہ جذبات راسخ ہوں اور ساتھ ساتھ اپنی دینی ذمہ داریوں کا بھی احساس ہو تو وہ اپنے فرائض اور ذمہ داریاں احسن طریقہ سے اخلاص کے ساتھ پوری کرسکتے ہیں۔ (ماہ نامہ دارالعلوم، شعبان:1437)
حضرت علی کرم الله وجہہ سے منقول ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:” اپنے بچوں کو تین باتیں سکھاؤ، اپنے نبی کی محبت اور ان کے اہل بیت سے محبت اور قرآن مجید کی تلاوت، اس لیے کہ قرآن کریم یاد کرنے والے الله کے عرش کے سایہ میں انبیاء کے ساتھ اس دن میں ہوں گے جس دن اس کے سایہ کے علاوہ اور کوئی سایہ نہ ہو گا۔ “(طبرانی)
اس حدیث پاک میں جنابِ رسول کریم صلی الله علیہ وسلم بچوں کی بہترین تربیت کے حوالہ سے بہترین راہ نمائی فرما دی کہ نبی ﷺ سےمحبت کرنا، ان کے اہل بیت، صحابہ کرام رضوان الله علیہم اجمعین سے محبت کرنا بچوں کو سکھایا جائے اور قرآن کریم کی تلاوت کرنے کی تلقین کی جائے۔ والدین کی طرف سے اپنی اولاد کو بہترین تحفہ وہ قرآنی تعلیم ہے۔ آج ہم اپنی اولاد کے لیے روپیہ، پیسہ اور طرح طرح کی جائیداد، پراپرٹی جمع کرتے تھکتے نہیں کہ یہ چیزیں ہمارے بعد ہماری اولاد کے لیے فائدہ مند ہوں، لیکن ان کی دینی علوم کی پیاس بجھانے کی ہم ذرا فکر نہیں کرتے، حالاں کہ جائیداد اور مال ودولت سے صرف دنیاوی حاجات کاتکفل ہوتاہے، جب کہ قرآن وحدیث اور دینی تعلیم تو دنیا وآخرت دونوں میں کام آتی ہے۔
چھوٹے بچوں کی تربیت کا طریقۂ کار:
چھوٹے بچوں کا ذہن صاف وشفاف اور خالی ہوتا ہے اس میں جو چیز بھی نقش کردی جائے وہ نقش علی الحجرکی طرح مضبوط وپائیدار ہوتی ہے۔ قرآن وحدیث میں یہ حقیقت واشگاف انداز میں بیان کی گئی کہ ہر بچہ توحید خالص کی فطرت پر پیدا ہوتا ہے اصل کے اعتبار سے اس میں طہارت، پاکیزگی، برائیوں سے دوری اور ایمان کی روشنی ہوتی ہے۔ پھر اسے گھر میں اچھی تربیت اور معاشرہ میں اچھے ساتھی میسر آجائیں تو وہ ایمان و اخلاق میں اسوہ نمونہ اور کامل انسان بن جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے ہر نومولود، فطرت سلیمہ پر پیدا ہوتا ہےپھر اس کے والدین اسے یہودی، نصرانی یا مجوسی بنادیتے ہیں۔ ۔ ۔ یعنی بچے کو جیسا ماحول اور تربیت میسر آئے گی وہ اسی رخ پر چل پڑے گا اگر اسے ایمانی ماحول اور اسلامی تربیت میسر آجائے تو وہ یقینا معاشرہ میں حقیقی مسلمان بن کر ابھرے گا؛ لیکن اس کی تربیت صحیح نہج پر نہ ہو گھر کے اندر اور باہر اسے اچھا ماحول نہ ملے تو وہ معاشرہ میں مجرم اور فسادی انسان بن کر ابھرے گا۔
ماہرین نفسیات کے مطابق بچپن میں اولاد کی تربیت جوانی کے بالمقابل بہت آسان ہے، جس طرح زمین سے اُگنے والے نرم ونازک پودوں کو بہ سہولت کہیں بھی موڑا جاسکتاہے اسی طرح بچوں کے خیالات، افکار اور طرز زندگی کو جس رخ پر چاہے بہ آسانی موڑا جاسکتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچوں کی تربیت کے حوالے سے کیا رہنمائی فرمائی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود اس کا کس درجہ خیال رکھتے تھے؟؟؟اس کی بیشمار مثالیں کتب حدیث وسیرت میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ حضرت عمروبن ابی سلمہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں میں جب چھوٹا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھانا تناول کرتے ہوئے میرا ہاتھ برتن میں ادھر اُدھر چلا جاتا تھا۔ ۔ ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ارشاد فرمایا اے لڑکے اللہ کا نام لو دائیں ہاتھ سے کھاؤ اور اپنے قریب سے کھاؤ (رواہ مسلم)۔
اسی طرح حضرت عبداللہ بن عامر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :ایک روز اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر تشریف فرماتھے میری والدہ نے مجھے پکارا آؤ ایک چیز دوں گی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے والدہ سے دریافت فرمایا کے تم نے اسے کیا دینا چاہا؟؟؟۔ ۔ ۔ والدہ نے عرض کیا کے کھجور دینا چاہتی تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے والدہ سے ارشاد فرمایا: سنو اگر تم اسے کچھ نہ دیتیں تو تمہارے حق میں (نامہ اعمال میں ) یہ ایک جھوٹ لکھا جاتا (رواہ ابوداؤد وبیہقی)
غور کیجئے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بچوں کو اُمید وآس دلا کر کچھ نہ دینے سے بھی منع فرمایا اور اسے جھوٹ قرار دیا اس کا ایک اہم نقصان یہ ہے کہ اس سے بچوں کی تربیت اور اُن کے اخلاق وکردار پر منفی اثرات پڑیں گے اور وہ بھی جھوٹ کے عادی ہوجائیں گے کیونکہ بچے اپنے بڑوں سے جس چیز کو دیکھتے یا سنتے ہیں اس کا اثر بہت جلد قبول کر لیتے ہیں اور بچپن کا یہ اثر نہایت مضبوط ومستحکم اور پائیدار ہوتا ہے۔
نوجوانوں کی تربیت کا لائحہ عمل:
بچپن میں لاڈ پیار اور غفلت و لاپرواہی کے سبب اولاد کی تربیت میں کچھ کمی رہ جائےتو بڑے ہونےکےبعدبھی اس کمی کا ازالہ ممکن ہے؛مگر مثبت نتائج کےلیے عجلت کا مظاہرہ نہ کیاجائےاور تربیت میں تدریجی انداز اختیار کیاجائے۔ چنانچہبچوں کےبڑےہوجانےکےبعد غلطی پر تنبیہ کی ترتیب یوں ہونی چاہیے: 1-افہام وتفہیم۔ 2-زجروتوبیخ۔ 3-مارکے علاوہ کوئی دوسری سزا مثلاً قطع تعلق وغیرہ۔ یعنی غلطی ہوجانے پرحکمت عملی کے ساتھ تربیت کا اہتمام کیا جائے، اگر پہلی مرتبہ غلطی ہو تو اولاً اُسے اشاروں اور کنایوں سے سمجھایا جائے، صراحةً برائی کا ذکر کرنا ضروری نہیں۔ اگربچہ بار بار ایک ہی غلطی کرتا ہے تو نصیحت و موعظت کے مختلف انداز اختیارکیےجائیں ساتھ ہی اس کے دل میں یہ بات بٹھائی جائے کہ اگر دوبارہ ایسا ہوا تو اس کے ساتھ سختی برتی جائے گی، اس وقت بھی ڈانٹ ڈپٹ کی ضرورت نہیں ہے، نصیحت اور پیار سے اُسے غلطی کا احساس دلایاجائے۔ اور سب سے بڑھ کر گھر کے ماحول کو دینی بنانے کی ہرممکن کوشش کی جائے؛تاکہ وہ رفتہ رفتہ اسلامیات سے قریب ہونے کا عادی ہوجائے۔ مذکورہ بالا امور کی انجام دہی کوایک چیلنج کے طور پر لیاجائے
آج کی سب سے بڑی عبادت یہ ہے کہ اس فکری اضطراب اور نفسیاتی الجھنوں کا علاج بہم پہنچایا جائے جس میں آج کا تعلیم یافتہ نوجوان بری طرح گرفتار ہے اور اس کی عقل و ذہن کو اسلام پر پوری مطمئن کر دیا جائے.‘‘ اس اہم اور بنیادی کام سے تغافل برتنا ایک سنگین جرم ہے، جس کا خمیازہ یقینا بھگتنا پڑے گا۔ نوجوانوں کے درمیان مقصد زندگی سے ناآشنائی، تزکیہ و تربیت کی کمزوری، اور ان کے اندر فکری، تعمیری اور تخلیقی سوچ کا پروان نہ چڑھنا بہت بڑا المیہ ہے۔
مختصر یہ کہ اس وقت گرمائی تعطیلات کا زمانہ چل رہاہےجو اگرچہ بہت طویل نہیں ہوتا، مگر منظم کوششوں اور منصوبہ بند کاوشوں سے بڑی حدتک تبدیلی لائی جاسکتی - ایک صالح اور انقلابی جدوجہد کے ذریعے مسلم نوجوانوں کے رخ کو دین وآخرت کی طرف موڑنا چاہیے۔والدین اور اساتذہ پر بنیادی ذمہ داری عائد ہوتی ہے وہ بچوں کی خصوصی تربیت کا اہتمام کریں کیونکہ یہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں