بچوں میں تخلیقی صلاحیت کیسے پیدا کی جائے ؟
تخلیقی صلاحیتوں سے مراد کسی بھی فرد کی وہ صلاحیتیں ہیں جن کی بدولت وہ نئے نئے خیالات تخلیق کرتا ہے۔ اس کی خیالی تصویر بنانے کی قوت بہت تیز ہوتی ہے۔ وہ جمالیات کی حس کا مالک ہوتا ہے۔ یہ تمام باتیں نہ صرف بڑے بلکہ چھوٹے بچوں میں بھی موجود ہوتی ہیں۔ وہ ہر چیز اور ہر کام کا بغور مشاہدہ کرتے ہیں۔ ان میں جستجو کا مادہ ہوتا ہے۔ وہ چھوتے ہیں، سونگھتے ہیں، سوچتے ہیں اور کھلونوں سے باتیں کر کے اپنے احساسات کا اظہار کرتے ہیں۔ ایک چیز میں کئی چیزیں ڈال کر دیکھتے ہیں کہ اس سے اب کیا بنے گا۔ ایک رنگ میں کئی رنگ ملاتے ہیں۔ وہ چیزوں کو کبھی علیحدہ رکھتے ہیں اور کبھی ڈھیر لگا دیتے ہیں۔ کبھی تقسیم کرتے ہیں تو کبھی چھپا دیتے ہیں۔ یعنی تمام امکانات پر غور کرتے ہیں گویا ہر بچے میں تخلیق کا مادہ ہوتا ہے
۔
اگر والدین بچوں میں تجسس، جوش و خروش اور کام میں لگن پیدا کریں، ان کو آزاد ماحول فراہم کریں جس میں بچے خود اپنے تجربات کے ذریعے ماحول سے آگاہی حاصل کریں تو ان کی تخلیقی صلاحیتیں مزید نشو و نما پاتی ہیں۔ اِس ضمن میں آرٹس اینڈ کرافٹس (arts and crafts) کو خاص اہمیت حاصل ہے کیونکہ اس میں بچے خاص دلچسپی کا مظاہرہ کرتے ہیں، اس سے بچوں کے سوچنے اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت بہتر ہوتی ہے، اُنہیں رنگوں کی پہچان ہوتی ہے اور وہ رنگوں کا بہتر استعمال کرنا سیکھتے ہیں۔
اِسی طرح بچوں میں ذوقِ مطالعہ پیدا کرنے کے لیے والدین بچوں کو سوتے وقت قصص الانبیاء، حکایات اور دلچسپ سبق آموز کہانیاں سنا کر اس رحجان کو پروان چڑھا سکتے ہیں۔ بچوں کے ذوق اور سمجھ کے مطابق کتب سے کہانیاں پڑھ کر سنا سکتے ہیں۔ بچوں کو دکان پر لے جا کر کتب خرید کر دے سکتے ہیں، امتحانات یا کامیابی کے مواقع پر بطور انعام کتاب دے کر، بچے کا لائبریری سے تعلق پیدا کر کے، بچوں کی کتاب دوستی کو بتدریج مضبوط کر سکتے ہیں۔
اسی طرح والدین بچوں کو بزمِ ادب کی طرز پر پروگرام میں شریک کر سکتے ہیں۔ جن میں بچوں کی صلاحیت اور رحجان کے مطابق کوئز مقابلے کی تیاری کے لیے کتب کی طرف رجوع کروا کر اُن میں کتب بینی کا شوق بڑھا سکتے ہیں۔ ایسی تعمیری سرگرمیوں میں حصہ لینے سے بچوں کی شخصیت میں پوشیدہ تخلیقی صلاحیتیں اُجاگر ہو سکتی ہیں
۔
مستقبل کی تیاری کے پیش نظر اور بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو اُجاگر کرنے کے لیے والدین گھریلو ذمہ داریوں کو بچوں میں تقسیم کر کے ان کی صلاحیتوں کا امتحان لے سکتے ہیں۔ مثلاً نو عمر بچوں کے ساتھ کبھی یہ تجربہ کریں کہ ایک دن والدین گھر میں اپنی ذمہ داریاں اپنی جگہ بچوں کو سونپ کر خود بچے بن جائیں۔ بچوں کو باری باری ایک دن کی ذمہ داری دے کر ان کے چھپے ہوئے جوہر سامنے لائے جا سکتے ہیں۔
نوعمر بچوں کو جج بنا کر گھر میں چھوٹے موٹے خاکے کھیل کے طور پر پیش کیے جائیں تاکہ ان کو انصاف کرنے اور فیصلہ کرنے کی تربیت دی جا سکے۔ کیونکہ جب نوعمر بچوں سے ذمہ دار اور قابل اعتماد ہستی کے طور پر برتاؤ کیا جاتا ہے تو ان کی خوابیدہ صلاحیتیں بیدار ہوتی ہیں۔
⭐ بچوں پر ٹی وی اور کیبل کے اثرات

بچے قوم کا مستقبل ہیں۔ بچوں کی تربیت صحیح نہج پر کر کے ہی روشن مستقبل کی اُمید کی جاسکتی ہے۔ اس کے برعکس بچوں کی غلط تربیت ان کی سیرت و کردار پر برے اثرات مرتب کرتی ہے۔ اسی لیے اسلام نے بچوں کی تربیت کو بہت اہمیت دی ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ آج والدین بچوں کی تربیت سے غافل ہوگئے ہیں اور ان کی جگہ میڈیا نے لے لی ہے۔ ٹی وی اور کیبل - جسے والدین اپنے بچوں کے لیے تفریح اور تعلیم کا ذریعہ سمجھتے ہیں - یہ دراصل اُن کی تباہی کا ذریعہ بن چکا ہے۔ آج کل بلا مبالغہ تین سے چار سال کے بچے بھی اس کام میں ماہر ہوتے ہیں کہ ٹی وی کو کس طرح آن کرنا ہے اور کیسے چینل تبدیل کرنا ہے۔ چونکہ اکثر بچے والدین کی مدد کے بغیر یہ کام خود ہی کرلیتے ہیں اس لیے کارٹون چینلز لگانے کے دوران وہ کوئی بھی چینل دیکھ لیتے ہیں اور والدین کے پاس وقت نہیں ہوتا کہ وہ آکر دیکھیں کہ بچے ٹی وی پر کیا دیکھ رہے ہیں۔ لہٰذا بذریعہ ٹی وی اور کیبل ذہنی تفریح کے نام پر بری عادات بچوں کی معصومانہ سوچ کا حصہ بننا شروع ہو جاتی ہیں، کیونکہ اس عمر میں بچوں کے سیکھنے کا عمل سب سے زیادہ دیکھنے اور سننے کے ذریعے ہوتا ہے۔ انہی ذرائع سے وہ زیادہ اثرات قبول کرتے ہیں۔ بچوں پر ٹی وی اور کیبل کے درج ذیل برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں

:
💫۔ ٹی وی اور کیبل کے زیادہ استعمال سے بچے اخلاقی اقدار سے دور ہو رہے ہیں۔
💫 بچوں کی صحت مندانہ ذہنی اور جسمانی نشو و نما میں کمی آ رہی ہے۔
💫 بچوں کی پڑھائی متاثر ہو رہی ہے۔
💫۔ بچوں کی کھیل کی کارکردگی پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے اِن ڈور اور آؤٹ ڈور کھیلوں کے دوران بچے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے جوہر نہیں دکھا سکتے۔
💫۔ جرائم پر مبنی پُرتشدد فلمیں، مار دھاڑ پر مبنی ویڈیو گیمز اور اخلاق سے گری ٹیلی ویژن سیریز سے بچوں میں ناراضگی، غصہ اور ہر وقت انکار کرنے والا رویہ اور برے اخلاق جنم لے رہے ہیں
۔
💫 بچوں میں ٹی وی اور کیبل کے زیادہ استعمال سے اکھڑ مزاجی، چڑ چڑا پن، ہٹ دھرمی اور بدتمیزی والے رویے پیدا ہوگئے ہیں۔
💫 بچوں کی نشو و نما کی رفتار سست ہوگئی ہے کیونکہ زیادہ ٹی وی دیکھنے والے بچوں کی خوراک کم ہوجاتی ہے۔
💫 بچوں کی نیند کے اوقات بہت بری طرح متاثر ہوتے ہیں ان کی نیند خلل کا شکار رہتی ہے اور وہ رات کو صحیح طرح سو نہیں پاتے۔
یہ امر بہت تشویش ناک ہے۔ والدین کو سنجیدگی سے بچوں کی تربیت کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔ انہیں ٹی وی اور کیبل سے بچانے کے لیے دیگر سرگرمیوں کی طرف مشغول کریں۔ ٹی وی اور کیبل پر صرف اسلامی پروگرام بچوں کو دیکھنے کی اجازت دیں اور اس کے لیے بھی مناسب وقت متعین کریں۔ اِس دوران والدین خود بچوں کے ساتھ بیٹھ کر وہ پروگرام دیکھیں تاکہ بچے بے راہ روی کا شکار نہ ہو سکیں۔
⭐بچوں کو کون سے پروگرام دکھانے چاہئیں۔۔
تربیت کے لحاظ سے والدین اپنے بچوں کو اسلامی و تعلیمی اور ملی پروگرامز دکھائیں۔ مثلاً ، امام ابو حنیفہ، امام بخاری، صلاح الدین ایوبی، میجر عزیز بھٹی شہید، راشد منہاس شہید، قیامِ پاکستان، قائد اعظم، علامہ محمد اقبال اور تحریک پاکستان کے دیگر ہیروز کی ڈاکومنٹری وغیرہ بچوں کو دکھائی جائیں۔ اس کے علاوہ اسلامی تعلیمات کے پروگرام، علمی و روحانی شخصیات کی اصلاحی و روحانی گفتگو جو بچوں کی ذہنی صلاحیت کے مطابق ہو، بھی دکھائی جا سکتی ہے۔
والدین بچوں کو یہ اختیار ہر گز نہ دیں کہ وہ
جب چاہیں جیسا چاہیں پروگرام چلائیں اور دیکھیں، کیونکہ اس طرح بچوں کے بگڑنے کا اندیشہ بہت بڑھ جاتا ہے۔ اس امر کا بھی خصوصی خیال رکھنا چاہیے کہ بچے چھوٹے اور ناسمجھ ہوتے ہیں، انہیں فضول اور لغو مصروفیات سے بچا کر ان کی اسلامی تربیت کریں۔ بچوں کو ہر وقت کمپیوٹر کے ساتھ مصروف نہ رہنے دیں بلکہ ان کے لیے ایک ٹائم ٹیبل متعین کریں جس میں وہ بیٹھ کر اسلامی پروگرام دیکھ سکیں اور والدین بچوں کو ان چیزوں کا استعمال اس طرح کرنا سکھائیں جو بچوں کی دنیوی اور اُخروی کامیابی کا ضامن بن جائے۔