بدھ، 6 جولائی، 2022

مسکرانا سنت ہے۔

 


مسکراتے رہوکیونکہ
یہ ہمارے نبی کی سنت ہے۔

⭐   حضور ﷺ اپنے صحابہ کرام کے ساتھ فطری انداز میں رہتے، ہنسی و مزاح میں بھی شریک ہوتے اور غم پریشانی میں بھی شریک رہتے۔ کیونکہ خوشی پر مسکراہٹ اور ہنسنا اللہ کی طرف سے نعمت ہے اور پریشانی پر غم اللہ کی طرف سے امتحان ہے۔ ہر وقت چہرے پر بارہ بجائے رکھنا، جلال میں رہنا، کوئی بڑی شخصیت ہیں تو ان کے ماتھے پر شکن رہنا، اور جلال اتنا ہے کہ اپنے ماتحت بھی بات کرنے میں خوف محسوس کریں کہ کہیں گستاخی نہ ہو جائے، گھر کے سربراہان کا اتنا خوف کہ اپنے بیوی بچے بھی سہمے رہیں، یہ سب تو شریعت مطہرہ کی تعلیمات نہیں ہیں۔

💫 اگر ہم اپنے روز مرہ معاملات اور معمولات میں صرف ایک مسکراہٹ کااضافہ کرلیں تو’’ سنت، تجارت، سہولت اور برکت‘‘ کا ایک امتزاج سامنے آئے گا۔



💫 الغرض مزاح ایک سنتِ مستحبہ ہے جولوگ اسے اپنی وقار اور شان کے خلاف سمجھتے ہیں وہ بہت بڑی غلطی پر ہیں اگر ہم اپنی زندگی میں مسکراہٹ والے پہلو کو لازم کر لیں تو ہم س کی زندگی آرام و سکون والی ڈپریشن سے آزاد ہو جائے گی۔

⭐ ہنسی اور مزاح کے فوائد

1:  جسمانی صحت کے فوائد

2:  قوت مدافعت کو بڑھاتا ہے۔

3: تناؤ کے ہارمونز کو کم کرتا ہے۔

4:درد کو کم کرتا ہے۔

5: آپ کے پٹھوں کو آرام دیتا ہے۔

6 دل کی بیماری کو روکتا ہے




⭐۔ دماغی صحت کے فوائد

1:  زندگی میں خوشی اور جوش شامل کرتا ہے۔ 

2: اضطراب اور تناؤ کو کم کرتا ہے۔

3:  تناؤ کو دور کرتا ہے۔

4:  مزاج کو بہتر بناتا ہے۔

5:  لچک کو مضبوط کرتا ہے۔

⭐ سماجی فوائد •



1:  تعلقات کو مضبوط کرتا ہے۔

2:  دوسروں کو ہماری طرف راغب کرتا ہے۔

3:  ٹیم ورک کو بڑھاتا ہے۔

4: تنازعات کو کم کرنے میں مدد کرتا ہے۔

5: گروپ بندی کو فروغ دیتا ہے




💫  ہنسی مدافعتی نظام کو بڑھاتی ہے۔ ہنسی تناؤ کے ہارمونز کو کم کرتی ہے اور مدافعتی خلیوں اور انفیکشن سے لڑنے والے اینٹی باڈیز کو بڑھاتی ہے، اس طرح بیماری کے خلاف آپ کی مزاحمت کو بہتر بناتی ہے۔ ہنسی اینڈورفنز کے اخراج کو متحرک کرتی ہے، جو جسم کے قدرتی طور پر اچھا محسوس کرنے والا کیمیکل ہے۔ اینڈورفنز مجموعی طور پر تندرستی کے احساس کو فروغ دیتے ہیں اور یہاں تک کہ عارضی طور پر درد کو دور کر سکتے ہیں۔



💫  ہمیں موقع مناسبت کے اعتبار سے ہر وقت مسکراتے رہنا چاہیئے، یعنی جب کسی سے ملاقات کریں تو مسکراکر ملیں، کسی بیمار یا پریشان حال لوگوں سے ملیں تو حسنِ اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسکراکر ملیں  ۔۔

معلومات عامہ




⭐ممی

💫انسان یا جانور کی لاش یا اعضا کو محفوظ کرنا

💫وکی پیڈیا کے مطابق ممی کی
تعریف
⭐ممّی (انگریزی: Mummy) ایک محفوظ کردہ لاش کو کہتے ہیں۔ ممّی کو کسی طریقے سے حنوط کر کے محفوظ کر دیتا ہے۔ اب تک دریافت شدہ ممّیوں میں سب پرانی 6000 سال قبل کی ہے۔

⭐ممی کتنی پرانی ہوسکتی ہیں؟

💫 حنوط شدہ لاشیں ہماری سوچ سے کہیں زیادہ پرانی ہیں: نئی تلاش تاریخ کو دوبارہ لکھ سکتی ہے۔پانچویں دور کے ایک اہلکار کی حنوط شدہ لاش کے نئے تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ جذب کرنے کی تکنیک (مردہ جسم میں مسالحے اور خوشبوئیں بھرنا تاکہ لاش عرصے تک محفوظ رہے) کی جدید ترین تکنیکیں پہلے کے خیال سے 1,000 سال پرانی ہیں۔



💫2019 میں دریافت ہونے والے خوی نامی ایک اعلیٰ درجے کے رئیس کی محفوظ لاش، گمان سے کہیں زیادہ پرانی پائی گئی ہے اور درحقیقت یہ اب تک دریافت ہونے والی قدیم ترین مصری ممیوں میں سے ایک ہے۔ 



مقبرے کی دیوار پر موجود ہیروگلیفس کے مطابق، خوی کو پانچویں خاندان کے دور میں دفن کیا گیا تھا جو 25ویں صدی قبل مسیح کے اوائل سے 24ویں صدی کے وسط تک پھیلا ہوا تھا۔ اس کی تاریخ پرانی بادشاہی سے ہے اور اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ تقریباً 4,000 سال قبل یہ ٹیکنالوجی بہت ترقی یافتہ تھی۔

پیر، 4 جولائی، 2022

تعلیم وتربیت

 



بچوں میں تخلیقی صلاحیت کیسے پیدا کی جائے ؟

 تخلیقی صلاحیتوں سے مراد کسی بھی فرد کی وہ صلاحیتیں ہیں جن کی بدولت وہ نئے نئے خیالات تخلیق کرتا ہے۔ اس کی خیالی تصویر بنانے کی قوت بہت تیز ہوتی ہے۔ وہ جمالیات کی حس کا مالک ہوتا ہے۔ یہ تمام باتیں نہ صرف بڑے بلکہ چھوٹے بچوں میں بھی موجود ہوتی ہیں۔ وہ ہر چیز اور ہر کام کا بغور مشاہدہ کرتے ہیں۔ ان میں جستجو کا مادہ ہوتا ہے۔ وہ چھوتے ہیں، سونگھتے ہیں، سوچتے ہیں اور کھلونوں سے باتیں کر کے اپنے احساسات کا اظہار کرتے ہیں۔ ایک چیز میں کئی چیزیں ڈال کر دیکھتے ہیں کہ اس سے اب کیا بنے گا۔ ایک رنگ میں کئی رنگ ملاتے ہیں۔ وہ چیزوں کو کبھی علیحدہ رکھتے ہیں اور کبھی ڈھیر لگا دیتے ہیں۔ کبھی تقسیم کرتے ہیں تو کبھی چھپا دیتے ہیں۔ یعنی تمام امکانات پر غور کرتے ہیں گویا ہر بچے میں تخلیق کا مادہ ہوتا ہے


۔

اگر والدین بچوں میں تجسس، جوش و خروش اور کام میں لگن پیدا کریں، ان کو آزاد ماحول فراہم کریں جس میں بچے خود اپنے تجربات کے ذریعے ماحول سے آگاہی حاصل کریں تو ان کی تخلیقی صلاحیتیں مزید نشو و نما پاتی ہیں۔ اِس ضمن میں آرٹس اینڈ کرافٹس (arts and crafts) کو خاص اہمیت حاصل ہے کیونکہ اس میں بچے خاص دلچسپی کا مظاہرہ کرتے ہیں، اس سے بچوں کے سوچنے اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت بہتر ہوتی ہے، اُنہیں رنگوں کی پہچان ہوتی ہے اور وہ رنگوں کا بہتر استعمال کرنا سیکھتے ہیں۔

اِسی طرح بچوں میں ذوقِ مطالعہ پیدا کرنے کے لیے والدین بچوں کو سوتے وقت قصص الانبیاء، حکایات اور دلچسپ سبق آموز کہانیاں سنا کر اس رحجان کو پروان چڑھا سکتے ہیں۔ بچوں کے ذوق اور سمجھ کے مطابق کتب سے کہانیاں پڑھ کر سنا سکتے ہیں۔ بچوں کو دکان پر لے جا کر کتب خرید کر دے سکتے ہیں، امتحانات یا کامیابی کے مواقع پر بطور انعام کتاب دے کر، بچے کا لائبریری سے تعلق پیدا کر کے، بچوں کی کتاب دوستی کو بتدریج مضبوط کر سکتے ہیں۔

اسی طرح والدین بچوں کو بزمِ ادب کی طرز پر پروگرام میں شریک کر سکتے ہیں۔ جن میں بچوں کی صلاحیت اور رحجان کے مطابق کوئز مقابلے کی تیاری کے لیے کتب کی طرف رجوع کروا کر اُن میں کتب بینی کا شوق بڑھا سکتے ہیں۔ ایسی تعمیری سرگرمیوں میں حصہ لینے سے بچوں کی شخصیت میں پوشیدہ تخلیقی صلاحیتیں اُجاگر ہو سکتی ہیں


۔

مستقبل کی تیاری کے پیش نظر اور بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو اُجاگر کرنے کے لیے والدین گھریلو ذمہ داریوں کو بچوں میں تقسیم کر کے ان کی صلاحیتوں کا امتحان لے سکتے ہیں۔ مثلاً نو عمر بچوں کے ساتھ کبھی یہ تجربہ کریں کہ ایک دن والدین گھر میں اپنی ذمہ داریاں اپنی جگہ بچوں کو سونپ کر خود بچے بن جائیں۔ بچوں کو باری باری ایک دن کی ذمہ داری دے کر ان کے چھپے ہوئے جوہر سامنے لائے جا سکتے ہیں۔

نوعمر بچوں کو جج بنا کر گھر میں چھوٹے موٹے خاکے کھیل کے طور پر پیش کیے جائیں تاکہ ان کو انصاف کرنے اور فیصلہ کرنے کی تربیت دی جا سکے۔ کیونکہ جب نوعمر بچوں سے ذمہ دار اور قابل اعتماد ہستی کے طور پر برتاؤ کیا جاتا ہے تو ان کی خوابیدہ صلاحیتیں بیدار ہوتی ہیں۔



⭐ بچوں پر ٹی وی اور کیبل کے  اثرات




بچے قوم کا مستقبل ہیں۔ بچوں کی تربیت صحیح نہج پر کر کے ہی روشن مستقبل کی اُمید کی جاسکتی ہے۔ اس کے برعکس بچوں کی غلط تربیت ان کی سیرت و کردار پر برے اثرات مرتب کرتی ہے۔ اسی لیے اسلام نے بچوں کی تربیت کو بہت اہمیت دی ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ آج والدین بچوں کی تربیت سے غافل ہوگئے ہیں اور ان کی جگہ میڈیا نے لے لی ہے۔ ٹی وی اور کیبل - جسے والدین اپنے بچوں کے لیے تفریح اور تعلیم کا ذریعہ سمجھتے ہیں - یہ دراصل اُن کی تباہی کا ذریعہ بن چکا ہے۔ آج کل بلا مبالغہ تین سے چار سال کے بچے بھی اس کام میں ماہر ہوتے ہیں کہ ٹی وی کو کس طرح آن کرنا ہے اور کیسے چینل تبدیل کرنا ہے۔ چونکہ اکثر بچے والدین کی مدد کے بغیر یہ کام خود ہی کرلیتے ہیں اس لیے کارٹون چینلز لگانے کے دوران وہ کوئی بھی چینل دیکھ لیتے ہیں اور والدین کے پاس وقت نہیں ہوتا کہ وہ آکر دیکھیں کہ بچے ٹی وی پر کیا دیکھ رہے ہیں۔ لہٰذا بذریعہ ٹی وی اور کیبل ذہنی تفریح کے نام پر بری عادات بچوں کی معصومانہ سوچ کا حصہ بننا شروع ہو جاتی ہیں، کیونکہ اس عمر میں بچوں کے سیکھنے کا عمل سب سے زیادہ دیکھنے اور سننے کے ذریعے ہوتا ہے۔ انہی ذرائع سے وہ زیادہ اثرات قبول کرتے ہیں۔ بچوں پر ٹی وی اور کیبل کے درج ذیل برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں


:

💫۔ ٹی وی اور کیبل کے زیادہ استعمال سے بچے اخلاقی اقدار سے دور ہو رہے ہیں۔

💫 بچوں کی صحت مندانہ ذہنی اور جسمانی نشو و نما میں کمی آ رہی ہے۔

💫 بچوں کی پڑھائی متاثر ہو رہی ہے۔

💫۔ بچوں کی کھیل کی کارکردگی پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے اِن ڈور اور آؤٹ ڈور کھیلوں کے دوران بچے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے جوہر نہیں دکھا سکتے۔

💫۔ جرائم پر مبنی پُرتشدد فلمیں، مار دھاڑ پر مبنی ویڈیو گیمز اور اخلاق سے گری ٹیلی ویژن سیریز سے بچوں میں ناراضگی، غصہ اور ہر وقت انکار کرنے والا رویہ اور برے اخلاق جنم لے رہے ہیں


۔

💫 بچوں میں ٹی وی اور کیبل کے زیادہ استعمال سے اکھڑ مزاجی، چڑ چڑا پن، ہٹ دھرمی اور بدتمیزی والے رویے پیدا ہوگئے ہیں۔

💫 بچوں کی نشو و نما کی رفتار سست ہوگئی ہے کیونکہ زیادہ ٹی وی دیکھنے والے بچوں کی خوراک کم ہوجاتی ہے۔

💫 بچوں کی نیند کے اوقات بہت بری طرح متاثر ہوتے ہیں ان کی نیند خلل کا شکار رہتی ہے اور وہ رات کو صحیح طرح سو نہیں پاتے۔

یہ امر بہت تشویش ناک ہے۔ والدین کو سنجیدگی سے بچوں کی تربیت کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔ انہیں ٹی وی اور کیبل سے بچانے کے لیے دیگر سرگرمیوں کی طرف مشغول کریں۔ ٹی وی اور کیبل پر صرف اسلامی پروگرام بچوں کو دیکھنے کی اجازت دیں اور اس کے لیے بھی مناسب وقت متعین کریں۔ اِس دوران والدین خود بچوں کے ساتھ بیٹھ کر وہ پروگرام دیکھیں تاکہ بچے بے راہ روی کا شکار نہ ہو سکیں۔

⭐بچوں کو  کون سے پروگرام دکھانے چاہئیں۔۔

تربیت کے لحاظ سے والدین اپنے بچوں کو  اسلامی و تعلیمی اور ملی پروگرامز دکھائیں۔ مثلاً ، امام ابو حنیفہ، امام بخاری، صلاح الدین ایوبی، میجر عزیز بھٹی شہید، راشد منہاس شہید، قیامِ پاکستان، قائد اعظم، علامہ محمد اقبال اور تحریک پاکستان کے دیگر ہیروز کی ڈاکومنٹری وغیرہ بچوں کو دکھائی جائیں۔ اس کے علاوہ اسلامی تعلیمات کے پروگرام، علمی و روحانی شخصیات کی اصلاحی و روحانی گفتگو جو بچوں کی ذہنی صلاحیت کے مطابق ہو، بھی دکھائی جا سکتی ہے۔

والدین بچوں کو یہ اختیار ہر گز نہ دیں کہ وہ


جب چاہیں جیسا چاہیں پروگرام چلائیں اور دیکھیں، کیونکہ اس طرح بچوں کے بگڑنے کا اندیشہ بہت بڑھ جاتا ہے۔ اس امر کا بھی خصوصی خیال رکھنا چاہیے کہ بچے چھوٹے اور ناسمجھ ہوتے ہیں، انہیں فضول اور لغو مصروفیات سے بچا کر ان کی اسلامی تربیت کریں۔ بچوں کو ہر وقت کمپیوٹر کے ساتھ مصروف نہ رہنے دیں بلکہ ان کے لیے ایک ٹائم ٹیبل متعین کریں جس میں وہ بیٹھ کر اسلامی پروگرام دیکھ سکیں اور والدین بچوں کو ان چیزوں کا استعمال اس طرح کرنا سکھائیں جو بچوں کی دنیوی اور اُخروی کامیابی کا ضامن بن جائے۔



اتوار، 3 جولائی، 2022

تعلیم وتربیت



 غیر موزوں نصاب تعلیم اور تدریس کے بچوں کے ذہن پر  اثرات

💫 غیرموزوں نصاب تعلیم اور تدریس بچوں کی ذہنی صحت بگاڑنے کا سبب بنتے ہیں۔ اس سے بچوں میں علم سے لگاؤ پیدا کرنے کی بجائے بیزاری کے جذبات اُبھرتے ہیں۔ جب بچے کو کوئی مضمون غیر دلچسپ اور مشکل نظر آتا ہو اور استاد اس کی تدریس بھی موزوں انداز میں نہ کرے توبچہ اس میں مسلسل ناکامیوں کا شکار ہونے لگتا ہے جبکہ جبراً اس کا مطالعہ جاری رکھا جاتا ہے۔ یہ دونوں صورتیں بچے کی ذہنی صحت کے لیے ناسازگار ہیں۔ کسی ایک سمت میں مسلسل ناکامیوں کے باعث زندگی کی کئی اور سمتوں میں بھی تلخیوں کے امکان بڑھ جاتے ہیں۔ جس سے اس کی تخلیقی صلاحیتوں کی مناسب نشو و نما کو ٹھیس پہنچتی ہے اور اس کی زندگی تلخی اور محرومیتکا شکار ہو جاتی ہے۔

💫مختلف عمر اور استعداد کے بچوں کے لیے موزوں نصاب وضع کرنا اور پھر اُس کی موزوں تدریس کرنا ایک ایسا لطیف اور دقیق عمل ہے جسے مسلسل مشاہدہ، مطالعہ اور تحقیق کے ذریعے سے ہی سر انجام دیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح ہر طالب علم کو ایک ہی قسم کے چند مخصوص مضامین پڑھنے پر مجبور کر دینا ذہنی صلاحیتوں کو کھو دینے کے مترادف ہے۔ مثلاً بعض طلبہ مشینوں اور پرزوں کے جوڑ توڑ کی طرف خصوصی طور پر مائل ہوتے ہیں ایسے طلبہ کے لیے نصاب تعلیم میں اس قسم کے مضامین کا اہتمام ہونا چاہیے جنہیں پڑھ کر ان کی مشینوں اور پرزوں وغیرہ میں دلچسپی اور بصیرت بڑھے۔



💫 اسی طرح ادب اور شعر و شاعری سے خصوصی شغف رکھنے والے طلبہ کو اپنے فطری رحجانات کے منافی مضامین پڑھنے پر مجبور نہیں کرنا چاہیے۔ جن طلبہ کو ان کی فطری دلچسپی اور صلاحیتوں کے عین مطابق مضامین پڑھائے جاتے ہیں وہ اپنی تعلیم کے دوران بہت دل چسپی اور مسرت محسوس کرتے ہیں، وہ پڑھائی کی مشکلات کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنے مخصوص حلقہ علم و ہنر میں بڑا نام پیدا کر لیتے ہیں۔



💫نصاب کے مضامین کے علاوہ معلم کا طریق تدریس بھی بچوں کی ذہنی صحت پر اثر انداز ہوتا ہے۔ موزوں تدریس سے بچے مشکل سے مشکل مواد بھی بہت آسانی سے سمجھ سکتے ہیں۔ اسباق کے مختلف نکات پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے بحث و تقریر کے دلچسپ مقابلوں کااہتمام کر کے بھی اُستاد اپنی تدریس کو موثر بنا سکتا ہے۔ استاد تدریس کے لیے جدید طریقے استعمال کرے تاکہ بچے تعلیم کو بوجھ سمجھنے کی بجائے اس میں مسرت اور لذت محسوس کریں اور ان کے ذہن میں اسکول اور اس کے علمی اور تمدنی مشاغل سے دلچسپی اور محبت کا جذبہ بیدار ہو۔



ہفتہ، 2 جولائی، 2022

تعلیم وتربیت




تعلیمی مقاصد کے حصول کے لیے استاد کودرج ذیل باتوں کا خیال رکھنا چاہیے:_

تعلیمی نظام میں استاد کا کردار اعلیٰ درجے کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ ملت کا معمار اور طلبہ کا روحانی باپ ہوتا ہے۔ آئندہ نسلوں کی کردار سازی استاد کے ذمہ ہی ہوتی ہے چنانچہ مستقبل کے شہریوں کا بننا اور بگڑنا بہت حد تک استاد کی فکر اور کاوشوں پر منحصر ہوتا ہے۔ اس اہم منصب کے لحاظ سے استاد کو اعلیٰ اوصاف اور اچھی سیرت و کردار کا حامل ہونا چاہیے۔ اس میں علمی قابلیت اور تدریسی صلاحیت کے ساتھ ساتھ بچوں کی نفسیات اور طریق تعلیم سے آگاہی بھی ہونی چاہیے۔ اس میں صبر و تحمل، معاملہ فہمی، قوتِ فیصلہ، طلبہ سے فکری لگاؤ کے ساتھ کام میں نظم و ضبط، ہمدردی اور اصلاح کے جذبہ میں اخلاص کی صلاحیت بھی ہونی چاہیے۔

💫مستحکم آغاز تدریس

استاد کے لیے ضروری ہے کہ وہ کلاس روم میں تدریس کا آغاز مستحکم انداز سے کرے، کیونکہ طلبہ استاد کے احساسات کا اندازہ اس بات سے لگاتے ہیں کہ استاد کلاس روم میں ان پر کس طرح اثر انداز ہوتا ہے اورکیا رویہ اختیار کرتا ہے۔ لہٰذا تدریس کے آغاز میں استاد کو اپنا رویہ اتنا نرم اختیار نہیں کرنا چاہیے کہ طلبہ آزادی محسوس کرتے ہوئے اسے استاد ہی تصور نہ کریں اور سیکھنے کے عمل میں سنجیدہ رویہ اختیار نہ کر سکیں۔

💫استاد بطور منصف

اُستاد بطور منصف تمام طلبہ سے مساوی برتاؤ اختیارکرے۔ رنگ، نسل، زبان، مذہب اور قوم کی بنیاد پر تعصب کا مظاہرہ نہ کرے۔ بلکہ غیر جانبداری سے کام لے کر بچوں میں مصالحت کروائے تاکہ ان کی باہمی چپقلش ان کی معاشرتی زندگی کو متاثر نہ کرے۔

💫 بچوں کی عزت نفس کا تحفظ

عزت نفس کے معاملے میں بچے بدرجہا حساس ہوتے ہیں لہٰذا استاد ساری کلاس کے سامنے کسی ایک بچے کی شخصیت سے متعلق تضحیک آمیز رویہ اختیار کرنے سے گریز کرے تاکہ اس بچے کی عزت نفس مجروح نہ ہو۔

💫 پُرجوش اندازِ بیان

اُستاد کا انداز بیان پُرجوش ہونا چاہیے تاکہ طلبہ کی توجہ سبق کی طرف مبذول ہوسکے۔ اُستاد کو پر اُمید رہتے ہوئے ہرنئے سبق میں کمزور طلبہ کو انفرادی توجہ دے کر زیادہ محنت سے پڑھانا چاہیے۔

💫قواعد و ضوابط کا پابند

اُستاد کو قواعد و ضوابط کا پابند ہونا چاہیے۔ اُستاد کے لیے استقامت کا دامن تھامنا بہت ضروری ہے تاکہ طلبہ کو بھی احساس ہو کہ جو کام انہیں سونپا گیا ہے اس کو پورا کرنا ضروری ہے۔ اس سے ان میں سماجی نظم و ضبط اختیار کرنے میں مدد ملے گی۔ استاد موقع شناس ہو تاکہ حالات کی مناسبت سے کمرہ جماعت کا نظم و ضبط قائم رکھ سکے۔



💫 تدریس کا آغاز تازہ دم ہو

اُستاد کے لیے جہاں کلاس روم میں تدریس کے آغاز میں غیر معمولی رویہ اختیار کرنے سے احتراز لازم ہے وہاں اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ طلبہ کی توجہ اور دلچسپی سبق کے آغاز سے اختتام تک برقرار رکھے کیونکہ موثر تدریس کے لیے سبق میں طلبہ کا انہماک ضروری ہے۔


Takbeerat e tashreeq


     تکبیرات عید                      


تکبیراتِ  تشریق  کا ثبوت قرآن وحدیث اور آثارِ صحابہ سے ہے ۔ 


قرآنِ  کریم میں اللہ رب العزت کا فرمان ہے :   {وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَّعْدُودَاتٍ}ترجمہ: اور تم اللہ کو یاد کرو مخصوص چند  دنوں میں۔  (البقرۃ : 203)


تفسیر ابن کثیر میں ہے :


"قال ابن عباس : " الأيام المعدودات " أيام التشريق، و " الأيام المعلومات " أيام العشر. وقال عكرمة: {واذكروا الله في أيام معدودات} يعني : التكبير أيام التشريق بعد الصلوات المكتوبات: الله أكبر، الله أكبر".


 (حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے کہ   ایامِ  معدودات ( مخصوص چند دنوں ) سے مراد ایامِ تشریق ہیں۔  ( اعلاء السنن 4/148)


اس طرح حدیث  سنن الدارقطنی میں ہے :


"عن جابر عن أبي الطفيل عن علي وعمار أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يجهر في المكتوبات بـ {بسم الله الرحمن الرحيم}، وكان يقنت في الفجر، وكان يكبر يوم عرفة صلاة الغداة ويقطعها صلاة العصر آخر أيام التشريق". (2/389)


السنن الکبری للبیہقی میں ہے :


"عن عبد الرحمن بن سابط عن جابر : قال كان النبى صلى الله عليه وسلم يكبر يوم عرفة صلاة الغداة إلى صلاة العصر آخر أيام التشريق."(3/315)


"عن أبي الطفيل عن علي و عمار : أن النبي صلى الله عليه و سلم كان يجهر في المكتوبات ببسم الله الرحمن الرحيم، و كان يقنت في صلاة الفجر، و كان يكبر من يوم عرفة صلاة الغداة و يقطعها صلاة العصر آخر أيام التشريق". (1/439)


شرح السنۃ میں ہے :


"وذهب أكثر أهل العلم إلى أنه يبتدئ التكبير عقيب صلاة الصبح من يوم عرفة ، ويختم بعد العصر من آخر أيام التشريق، وهو قول عمر وعلي، وبه قال مكحول، لما روي عن جابر بن عبد الله أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يصلي صلاة الغداة يوم عرفة، ثم يستند إلى القبلة، فيقول : الله أكبر ، الله أكبر ، الله أكبر ، لا إله إلا الله ، والله أكبر ، الله أكبر ولله الحمد ، ثم يكبر دبر كل صلاة إلى صلاة العصر من آخر أيام التشريق." (7/146)


ان تمام  روایات کا حاصل یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ  عرفہ کے دن فجر کی نماز سے  تیرہ ذی الحجہ کی عصر کی نماز تک ہر فرض نماز کے بعد تکبیراتِ تشریق جہراً   کہتے تھے ۔


صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تکبیرات تشریق:


"عن علي رضي الله عنه أنه کان یکبر بعد صلاة الفجر یوم عرفة إلی صلاة العصر  من آخر أیام التشریق، و یکبر بعد العصر". (إعلاء السنن، باب تکبیرات التشریق : 4/148)


"عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ : يُكَبِّرُ مِنْ غَدَاةِ عَرَفَةَ إِلَى آخِرِ أَيَّامِ النَّحرِ لاَيُكَبِّرُ فِى الْمَغْرِبِ: اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ وَلِلَّهِ الْحَمْدُ اللَّهُ أَكْبَرُ وَأَجَلُّ اللَّهُ أَكْبَرُ عَلَى مَا هَدَانَا". (السنن الكبرى للبيهقي:6504)

" عن عبد الله أنه كان يكبر أيام التشريق: الله أكبر الله أكبر لا إله إلا الله والله أكبر الله أكبر ولله الحمد". (المصنف إبن أبي شيبه : 5694)

حضرت علی و ابن عباس و عبد ﷲ بن مسعود  رضی اللہ عنہم اجمعین ایامِ تشریق میں یہ تکبر یں پڑھاکر تے  تھے ۔

Career Exploration for Students: Finding Your Passion

 Career Exploration for Students: Finding Your Passion Discovering your career passion can be a game-changer for students. Here are some tip...