ہفتہ، 5 جولائی، 2025

Career Exploration for Students: Finding Your Passion

 Career Exploration for Students: Finding Your Passion


Discovering your career passion can be a game-changer for students. Here are some tips to help you get started:


1. *Reflect on your interests*: What subjects do you enjoy learning about? What activities make you feel engaged and motivated?

2. *Explore career options*: Research different careers related to your interests. Look into job descriptions, required skills, and growth opportunities.

3. *Network with professionals*: Reach out to people in your desired field and ask for advice or informational interviews.

4. *Gain practical experience*: Internships, volunteering, or part-time jobs can provide valuable hands-on experience.

5. *Stay flexible*: Be open to exploring different paths and adjusting your goals as you learn and grow.


*Useful Resources:*


- *Career Assessments:*

    - Myers-Briggs Type Indicator (MBTI): http://www.myersbriggs.org/

    - Strong Interest Inventory: http://www.cpp.com/

- *Online Career Platforms:*

    - LinkedIn: http://www.linkedin.com/

    - Glassdoor: http://www.glassdoor.com/

- *Professional Networks:*

    - Industry-specific conferences and events

    - Mentorship programs (e.g., eMentor, MentorNet)


*Additional Tips:*


- *Job Shadow*: Spend a day shadowing a professional in your desired field.

- *Informational Interviews*: Ask questions and gain insights from professionals in your desired field.

- *Career Fairs*: Attend career fairs to learn about different companies and industries.


*Key Takeaways*


- Identify your passions and interests

- Explore career options and network with professionals

- Gain practical experience and stay flexible


By following these steps and utilizing these resources, you'll be well on your way to discovering your career passion and setting yourself up for success.


اتوار، 23 جون، 2024

سات اہم سوالوں کے جواب



کیا آپ ان سات سوالوں کے جواب جانتے ہیں ؟ ۔۔۔





سوال نمبر ۔1:

جنت کہاں ہے؟ 

جواب:

جنت ساتوں آسمانوں کے اوپر ساتوں آسمانوں سے جدا ہے،

کیونکہ ساتوں آسمان قیامت کے وقت فنا اور ختم ہونے والے ہیں،

جبکہ جنت کو فنا نہیں ہے،

وہ ہمیشہ رہے گی،

جنت کی چھت عرشِ رحمٰن ہے.


سوال نمبر ۔2:

جہنم کہاں ہے؟ 



جواب:

جہنم ساتوں زمین کے نیچے ایسی جگہ ہے

جس کا نام "سجین" ہے.

جہنم جنت کے بازو میں نہیں ہے،جیسا کہ بعض لوگ سوچتے ہیں.

جس زمین پر ہم رہتے ہیں

یہ پہلی زمین ہے،

اس کے علاوہ چھ زمینیں اور ہیں

جو ہماری زمین کے نیچے ہماری زمین سے علیحدہ اور جدا ہیں.


سوال نمبر ۔3:

سدر ة المنتهٰی کیا ہے؟

جواب:

سدرة عربی میں بیری ۔ اور بیری کے درخت کو کہتے ہیں،

المنتہی یعنی آخری حد،

یہ بیری کا درخت وہ آخری مقام ہے

جو مخلوقات کی حد ہے.

اس سے آگے حضرت جبرئیل بھی نہیں جا پاتے ہیں. 

سدرة المنتهی ایک عظیم الشان درخت ہے،

اس کی جڑیں چھٹے آسمان میں

اور اونچائیاں ساتویں آسمان سے بھی بلند ہیں،

اس کے پتے ہاتھی کے کان جتنے

اور پھل بڑے گھڑے جیسے ہیں،

اس پر سنہری تتلیاں منڈلاتی ہیں ،

یہ درخت جنت سے باہر ہے.

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت جبریل علیہ السلام کو اسی درخت کے پاس ان کی اصل صورت میں دوسری مرتبہ دیکھا تھا،

جبکہ آپ صلى الله عليه وسلم نے انہیں پہلی مرتبہ اپنی اصل صورت میں مکہ مکرمہ میں مقام اجیاد پر دیکھا تھا.


سوال نمبر ۔4:

حورعین کون ہیں؟ 

جواب:

حور عین جنت میں مومنین کی بیویاں ہوں گی،

یہ نہ انسان ہیں نہ جن ہیں اور نہ ہی فرشتہ ہیں،

اللہ تعالیٰ نے انہیں مستقل پیدا کیا ہے،

یہ اتنی خوبصورت ہیں کہ اگر دنیا میں ان میں سے کسی ایک کی محض جھلک دکھائی دے جائے،

تو مشرق اور مغرب کے درمیان روشنی ہو جائے.

حور عربی زبان کا لفظ ہے ،

اور حوراء کی جمع ہے،

اس کے معنی ایسی آنکھ جس کی پتلیاں نہایت سیاه ہوں اور اس کے اطراف نہایت سفید ہوں.

اور عین عربی میں عیناء کی جمع ہے

اس کے معنی ہیں بڑی بڑی آنکھوں والی.


سوال ۔5:

ولدان مخلدون کون ہیں؟

جواب:

یہ اہل جنت کے خادم ہیں،

یہ بھی انسان یا جن یا فرشتے نہیں ہیں،

انہیں اللہ تعالیٰ نے اہل جنت کی خدمت کے لئے مستقل پیدا کیا ہے،

یہ ہمیشہ ایک ہی عمر کے یعنی بچے ہی رہیں گے،

اس لیے انہیں "الولدان المخلدون" کہا جاتا ہے.

سب سے کم درجہ کے جنتی کو

دس ہزار ولدان مخلدون عطا ہوں گے.


سوال نمبر ۔6:

اعراف کیا ہے؟ 

جواب:

جنت کی چوڑی فصیل کو اعراف کہتے ہیں.

اس پر وہ لوگ ہوں گے

جن کے نیک اعمال اور برائیاں دونوں برابر ہوں گی،

ایک لمبے عرصہ تک وہ اس پر رہیں گے

اور اللہ سے امید رکھیں گے کہ اللہ تعالیٰ انہیں بھی جنت میں داخل کردے.

انہیں وہاں بھی کھانے پینے کے لیے دیا جائے گا،

پھر اللہ تعالیٰ انہیں اپنے فضل سے جنت میں داخل کردےگا.


سوال نمبر ۔7:

قیامت کے دن کی مقدار اور لمبائی کتنی ہے؟

جواب:

پچاس ہزار سال كے برابر.


جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے:

*تعرج الملئكة و الروح اليه في يوم كان مقداره خمسين الف سنة.*


حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ

"قیامت کے پچاس موقف ہیں، اور ہر موقف ایک ہزار سال کا ہو گا."


جب آیت

*"یوم تبدل الأرض غیر الأرض و السماوات"*

نازل ہوئی

تو

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا کہ

"یا رسول اللہ جب یہ زمین و آسمان بدل دئیے جائیں گے تب ہم کہاں ہوں گے"؟


آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

"تب ہم پل صراط پر ہوں گے. 

پل صراط پر سے جب گزر ہوگا

اس وقت صرف تین جگہیں ہوں گی

1.جہنم 

2.جنت

3.پل صراط"


رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

"سب سے پہلے میں اور میرے امتی پل صراط کو طے کریں گے."


*پل صراط کی تفصیل*



قیامت میں جب موجودہ آسمان اور زمین بدل دئے جائیں گے

اور پل صراط پر سے گزرنا ہوگا

وہاں صرف دو مقامات ہوں گے

جنت اور جہنم.







جنت تک پہنچنے کے لیے

لازماً جہنم کے اوپر سے گزرنا ہوگا.


جہنم کے اوپر ایک پل نصب کیا جائے گا،

اسی کا نام" الصراط "ہے،

اس سے گزر کر جب اس کے پار پہنچیں گے

وہاں جنت کا دروازہ ہوگا،

وہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم موجود ہوں گے

اور اہل جنت کا استقبال کریں گے.


یہ پل صراط درج ذیل صفات کا حامل ہو گا:


1- بال سے زیادہ باریک ہوگا.


2- تلوار سے زیادہ تیز ہو گا. 


3- سخت اندھیرے میں ہوگا،

اس کے نیچے گہرائیوں میں جہنم بهی نہایت تاریکی میں ہوگی.,

سخت بپھری ہوئی اور غضبناک ہوگی. 


4- گناہ گار کے گناہ اس پر سے گزرتے وقت مجسم اس کی پیٹھ پر ہوں گے،

اگر اس کے گناہ زیادہ ہوں گے

تو اس کے بوجھ سے اس کی رفتار ہلکی ہو گی،

اللہ تعالیٰ ہمیں اس صورت سے اپنی پناہ میں رکھے.

اور جو شخص گناہوں سے ہلکا ہوگا

تو اس کی رفتار پل صراط پر تیز ہوگی.


5- اس پل کے اوپر آنکڑے لگے ہوئے ہوں گے

اور نیچے کانٹے لگے ہوں گے

جو قدموں کو زخمی کرکے اسے متاثر کریں گے.

لوگ اپنی بد اعمالیوں کے لحاظ سے اس سے متاثر ہوں گے.


6- جن لوگوں کی بے ایمانی اور بد اعمالیوں کی وجہ سے ان کے پیر پھسل کر وہ جہنم کے گڑهے میں گر رہے ہوں گے

ان کی بلند چیخ پکار سے پل صراط پر دہشت طاری ہو گی.


رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پل صراط کی دوسری جانب جنت کے دروازے پر کھڑے ہوں گے،


جب تم پل صراط پر پہلا قدم رکھ رہے ہوگے

آپ صلی اللہ علیہ و سلم تمہارے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہوئے کہیں گے"

یا رب سلم، یا رب سلم"


آپ بھی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے درود پڑهئے:


لوگ اپنی آنکھوں سے اپنے سامنے بہت سوں کو پل صراط سے گرتا ہوا دیکھیں گے

اور بہت سوں کو دیکھیں گے

کہ وہ اس سے نجات پا گئے ہیں.

بندہ اپنے والدین کو پل صراط پر دیکھے گا

لیکن ان کی کوئی فکر نہیں کرےگا،

وہاں تو بس ایک ہی فکر ہو گی کہ کسی طرح خود پار ہو جائے.


روایت میں ہے کہ

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا قیامت کو یاد کر کے رونے لگیں،


رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا:

عائشہ کیا بات ہے؟


حضرت عائشہ نے فرمایا: مجهے قیامت یاد آگئی،

یا رسول اللہ کیا ہم وہاں اپنے والدین کو یاد رکھیں گے؟

کیا وہاں ہم اپنے محبوب لوگوں کو یاد رکھیں گے؟


آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:

ہاں یاد رکھیں گے،

لیکن وہاں تین مقامات ایسے ہوں گے

جہاں کوئی یاد نہیں رہے گا

.(1) جب کسی کے اعمال تولے جائیں گے

(2) جب نامہ اعمال دیئے جائیں گے

 (3) جب پل صراط پر ہوں گے.


دنیاوی فتنوں کے مقابلے میں حق پر جمے رہو.

دنیاوی فتنے تو سراب ہیں.

ان کے مقابلہ میں ہمیں مجاہدہ کرنا چاہیے،

اور ہر ایک کو دوسرے کی جنت حاصل کرنے پر مدد کرنا چاہئے

جس کی وسعت آسمانوں اور زمین سے بهی بڑهی ہوئی ہے. 


اس پیغام کو آگے بڑهاتے ہوئے صدقہ جاریہ کی نیت کرنا نہ بھولیں.


یا اللہ ہمیں ان خوش نصیبوں میں کردیجئے

جو پل صراط کو آسانی سے پار کر لیں گے.


اے پروردگار ہمارے لئے اپنا فضل،کرم رحم والےحسن خاتمہ کا فیصلہ فرمائیے. آمین


اس تفصیل کے بعد بھی کیا گمان ہے کہ

وہاں کوئی رشتہ داریاں نبھائے گا،

جس کے لئے تم یہاں اپنے اعمال برباد کر رہے ہو؟


مخلوق کے بجائے خالق کی فکر کرو.

اپنے نفس کی فکر کرو

کتنی عمر گزر چکی ہے اور کتنی باقی ہے

کیا اب بهی لا پرواہی اور عیش کی گنجائش ہے؟


اس پیغام کو دوسروں تک بهی پہنچائیں.


یااللہ اس تحریر کو میری جانب سے بهی اور جو بھی اس کو عام کرنے میں مدد کرے سب کے لئے اس کو صدقہ جاریہ بنادیجئے آمین..

بدھ، 6 جولائی، 2022

مسکرانا سنت ہے۔

 


مسکراتے رہوکیونکہ
یہ ہمارے نبی کی سنت ہے۔

⭐   حضور ﷺ اپنے صحابہ کرام کے ساتھ فطری انداز میں رہتے، ہنسی و مزاح میں بھی شریک ہوتے اور غم پریشانی میں بھی شریک رہتے۔ کیونکہ خوشی پر مسکراہٹ اور ہنسنا اللہ کی طرف سے نعمت ہے اور پریشانی پر غم اللہ کی طرف سے امتحان ہے۔ ہر وقت چہرے پر بارہ بجائے رکھنا، جلال میں رہنا، کوئی بڑی شخصیت ہیں تو ان کے ماتھے پر شکن رہنا، اور جلال اتنا ہے کہ اپنے ماتحت بھی بات کرنے میں خوف محسوس کریں کہ کہیں گستاخی نہ ہو جائے، گھر کے سربراہان کا اتنا خوف کہ اپنے بیوی بچے بھی سہمے رہیں، یہ سب تو شریعت مطہرہ کی تعلیمات نہیں ہیں۔

💫 اگر ہم اپنے روز مرہ معاملات اور معمولات میں صرف ایک مسکراہٹ کااضافہ کرلیں تو’’ سنت، تجارت، سہولت اور برکت‘‘ کا ایک امتزاج سامنے آئے گا۔



💫 الغرض مزاح ایک سنتِ مستحبہ ہے جولوگ اسے اپنی وقار اور شان کے خلاف سمجھتے ہیں وہ بہت بڑی غلطی پر ہیں اگر ہم اپنی زندگی میں مسکراہٹ والے پہلو کو لازم کر لیں تو ہم س کی زندگی آرام و سکون والی ڈپریشن سے آزاد ہو جائے گی۔

⭐ ہنسی اور مزاح کے فوائد

1:  جسمانی صحت کے فوائد

2:  قوت مدافعت کو بڑھاتا ہے۔

3: تناؤ کے ہارمونز کو کم کرتا ہے۔

4:درد کو کم کرتا ہے۔

5: آپ کے پٹھوں کو آرام دیتا ہے۔

6 دل کی بیماری کو روکتا ہے




⭐۔ دماغی صحت کے فوائد

1:  زندگی میں خوشی اور جوش شامل کرتا ہے۔ 

2: اضطراب اور تناؤ کو کم کرتا ہے۔

3:  تناؤ کو دور کرتا ہے۔

4:  مزاج کو بہتر بناتا ہے۔

5:  لچک کو مضبوط کرتا ہے۔

⭐ سماجی فوائد •



1:  تعلقات کو مضبوط کرتا ہے۔

2:  دوسروں کو ہماری طرف راغب کرتا ہے۔

3:  ٹیم ورک کو بڑھاتا ہے۔

4: تنازعات کو کم کرنے میں مدد کرتا ہے۔

5: گروپ بندی کو فروغ دیتا ہے




💫  ہنسی مدافعتی نظام کو بڑھاتی ہے۔ ہنسی تناؤ کے ہارمونز کو کم کرتی ہے اور مدافعتی خلیوں اور انفیکشن سے لڑنے والے اینٹی باڈیز کو بڑھاتی ہے، اس طرح بیماری کے خلاف آپ کی مزاحمت کو بہتر بناتی ہے۔ ہنسی اینڈورفنز کے اخراج کو متحرک کرتی ہے، جو جسم کے قدرتی طور پر اچھا محسوس کرنے والا کیمیکل ہے۔ اینڈورفنز مجموعی طور پر تندرستی کے احساس کو فروغ دیتے ہیں اور یہاں تک کہ عارضی طور پر درد کو دور کر سکتے ہیں۔



💫  ہمیں موقع مناسبت کے اعتبار سے ہر وقت مسکراتے رہنا چاہیئے، یعنی جب کسی سے ملاقات کریں تو مسکراکر ملیں، کسی بیمار یا پریشان حال لوگوں سے ملیں تو حسنِ اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسکراکر ملیں  ۔۔

معلومات عامہ




⭐ممی

💫انسان یا جانور کی لاش یا اعضا کو محفوظ کرنا

💫وکی پیڈیا کے مطابق ممی کی
تعریف
⭐ممّی (انگریزی: Mummy) ایک محفوظ کردہ لاش کو کہتے ہیں۔ ممّی کو کسی طریقے سے حنوط کر کے محفوظ کر دیتا ہے۔ اب تک دریافت شدہ ممّیوں میں سب پرانی 6000 سال قبل کی ہے۔

⭐ممی کتنی پرانی ہوسکتی ہیں؟

💫 حنوط شدہ لاشیں ہماری سوچ سے کہیں زیادہ پرانی ہیں: نئی تلاش تاریخ کو دوبارہ لکھ سکتی ہے۔پانچویں دور کے ایک اہلکار کی حنوط شدہ لاش کے نئے تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ جذب کرنے کی تکنیک (مردہ جسم میں مسالحے اور خوشبوئیں بھرنا تاکہ لاش عرصے تک محفوظ رہے) کی جدید ترین تکنیکیں پہلے کے خیال سے 1,000 سال پرانی ہیں۔



💫2019 میں دریافت ہونے والے خوی نامی ایک اعلیٰ درجے کے رئیس کی محفوظ لاش، گمان سے کہیں زیادہ پرانی پائی گئی ہے اور درحقیقت یہ اب تک دریافت ہونے والی قدیم ترین مصری ممیوں میں سے ایک ہے۔ 



مقبرے کی دیوار پر موجود ہیروگلیفس کے مطابق، خوی کو پانچویں خاندان کے دور میں دفن کیا گیا تھا جو 25ویں صدی قبل مسیح کے اوائل سے 24ویں صدی کے وسط تک پھیلا ہوا تھا۔ اس کی تاریخ پرانی بادشاہی سے ہے اور اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ تقریباً 4,000 سال قبل یہ ٹیکنالوجی بہت ترقی یافتہ تھی۔

پیر، 4 جولائی، 2022

تعلیم وتربیت

 



بچوں میں تخلیقی صلاحیت کیسے پیدا کی جائے ؟

 تخلیقی صلاحیتوں سے مراد کسی بھی فرد کی وہ صلاحیتیں ہیں جن کی بدولت وہ نئے نئے خیالات تخلیق کرتا ہے۔ اس کی خیالی تصویر بنانے کی قوت بہت تیز ہوتی ہے۔ وہ جمالیات کی حس کا مالک ہوتا ہے۔ یہ تمام باتیں نہ صرف بڑے بلکہ چھوٹے بچوں میں بھی موجود ہوتی ہیں۔ وہ ہر چیز اور ہر کام کا بغور مشاہدہ کرتے ہیں۔ ان میں جستجو کا مادہ ہوتا ہے۔ وہ چھوتے ہیں، سونگھتے ہیں، سوچتے ہیں اور کھلونوں سے باتیں کر کے اپنے احساسات کا اظہار کرتے ہیں۔ ایک چیز میں کئی چیزیں ڈال کر دیکھتے ہیں کہ اس سے اب کیا بنے گا۔ ایک رنگ میں کئی رنگ ملاتے ہیں۔ وہ چیزوں کو کبھی علیحدہ رکھتے ہیں اور کبھی ڈھیر لگا دیتے ہیں۔ کبھی تقسیم کرتے ہیں تو کبھی چھپا دیتے ہیں۔ یعنی تمام امکانات پر غور کرتے ہیں گویا ہر بچے میں تخلیق کا مادہ ہوتا ہے


۔

اگر والدین بچوں میں تجسس، جوش و خروش اور کام میں لگن پیدا کریں، ان کو آزاد ماحول فراہم کریں جس میں بچے خود اپنے تجربات کے ذریعے ماحول سے آگاہی حاصل کریں تو ان کی تخلیقی صلاحیتیں مزید نشو و نما پاتی ہیں۔ اِس ضمن میں آرٹس اینڈ کرافٹس (arts and crafts) کو خاص اہمیت حاصل ہے کیونکہ اس میں بچے خاص دلچسپی کا مظاہرہ کرتے ہیں، اس سے بچوں کے سوچنے اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت بہتر ہوتی ہے، اُنہیں رنگوں کی پہچان ہوتی ہے اور وہ رنگوں کا بہتر استعمال کرنا سیکھتے ہیں۔

اِسی طرح بچوں میں ذوقِ مطالعہ پیدا کرنے کے لیے والدین بچوں کو سوتے وقت قصص الانبیاء، حکایات اور دلچسپ سبق آموز کہانیاں سنا کر اس رحجان کو پروان چڑھا سکتے ہیں۔ بچوں کے ذوق اور سمجھ کے مطابق کتب سے کہانیاں پڑھ کر سنا سکتے ہیں۔ بچوں کو دکان پر لے جا کر کتب خرید کر دے سکتے ہیں، امتحانات یا کامیابی کے مواقع پر بطور انعام کتاب دے کر، بچے کا لائبریری سے تعلق پیدا کر کے، بچوں کی کتاب دوستی کو بتدریج مضبوط کر سکتے ہیں۔

اسی طرح والدین بچوں کو بزمِ ادب کی طرز پر پروگرام میں شریک کر سکتے ہیں۔ جن میں بچوں کی صلاحیت اور رحجان کے مطابق کوئز مقابلے کی تیاری کے لیے کتب کی طرف رجوع کروا کر اُن میں کتب بینی کا شوق بڑھا سکتے ہیں۔ ایسی تعمیری سرگرمیوں میں حصہ لینے سے بچوں کی شخصیت میں پوشیدہ تخلیقی صلاحیتیں اُجاگر ہو سکتی ہیں


۔

مستقبل کی تیاری کے پیش نظر اور بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو اُجاگر کرنے کے لیے والدین گھریلو ذمہ داریوں کو بچوں میں تقسیم کر کے ان کی صلاحیتوں کا امتحان لے سکتے ہیں۔ مثلاً نو عمر بچوں کے ساتھ کبھی یہ تجربہ کریں کہ ایک دن والدین گھر میں اپنی ذمہ داریاں اپنی جگہ بچوں کو سونپ کر خود بچے بن جائیں۔ بچوں کو باری باری ایک دن کی ذمہ داری دے کر ان کے چھپے ہوئے جوہر سامنے لائے جا سکتے ہیں۔

نوعمر بچوں کو جج بنا کر گھر میں چھوٹے موٹے خاکے کھیل کے طور پر پیش کیے جائیں تاکہ ان کو انصاف کرنے اور فیصلہ کرنے کی تربیت دی جا سکے۔ کیونکہ جب نوعمر بچوں سے ذمہ دار اور قابل اعتماد ہستی کے طور پر برتاؤ کیا جاتا ہے تو ان کی خوابیدہ صلاحیتیں بیدار ہوتی ہیں۔



⭐ بچوں پر ٹی وی اور کیبل کے  اثرات




بچے قوم کا مستقبل ہیں۔ بچوں کی تربیت صحیح نہج پر کر کے ہی روشن مستقبل کی اُمید کی جاسکتی ہے۔ اس کے برعکس بچوں کی غلط تربیت ان کی سیرت و کردار پر برے اثرات مرتب کرتی ہے۔ اسی لیے اسلام نے بچوں کی تربیت کو بہت اہمیت دی ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ آج والدین بچوں کی تربیت سے غافل ہوگئے ہیں اور ان کی جگہ میڈیا نے لے لی ہے۔ ٹی وی اور کیبل - جسے والدین اپنے بچوں کے لیے تفریح اور تعلیم کا ذریعہ سمجھتے ہیں - یہ دراصل اُن کی تباہی کا ذریعہ بن چکا ہے۔ آج کل بلا مبالغہ تین سے چار سال کے بچے بھی اس کام میں ماہر ہوتے ہیں کہ ٹی وی کو کس طرح آن کرنا ہے اور کیسے چینل تبدیل کرنا ہے۔ چونکہ اکثر بچے والدین کی مدد کے بغیر یہ کام خود ہی کرلیتے ہیں اس لیے کارٹون چینلز لگانے کے دوران وہ کوئی بھی چینل دیکھ لیتے ہیں اور والدین کے پاس وقت نہیں ہوتا کہ وہ آکر دیکھیں کہ بچے ٹی وی پر کیا دیکھ رہے ہیں۔ لہٰذا بذریعہ ٹی وی اور کیبل ذہنی تفریح کے نام پر بری عادات بچوں کی معصومانہ سوچ کا حصہ بننا شروع ہو جاتی ہیں، کیونکہ اس عمر میں بچوں کے سیکھنے کا عمل سب سے زیادہ دیکھنے اور سننے کے ذریعے ہوتا ہے۔ انہی ذرائع سے وہ زیادہ اثرات قبول کرتے ہیں۔ بچوں پر ٹی وی اور کیبل کے درج ذیل برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں


:

💫۔ ٹی وی اور کیبل کے زیادہ استعمال سے بچے اخلاقی اقدار سے دور ہو رہے ہیں۔

💫 بچوں کی صحت مندانہ ذہنی اور جسمانی نشو و نما میں کمی آ رہی ہے۔

💫 بچوں کی پڑھائی متاثر ہو رہی ہے۔

💫۔ بچوں کی کھیل کی کارکردگی پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے اِن ڈور اور آؤٹ ڈور کھیلوں کے دوران بچے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے جوہر نہیں دکھا سکتے۔

💫۔ جرائم پر مبنی پُرتشدد فلمیں، مار دھاڑ پر مبنی ویڈیو گیمز اور اخلاق سے گری ٹیلی ویژن سیریز سے بچوں میں ناراضگی، غصہ اور ہر وقت انکار کرنے والا رویہ اور برے اخلاق جنم لے رہے ہیں


۔

💫 بچوں میں ٹی وی اور کیبل کے زیادہ استعمال سے اکھڑ مزاجی، چڑ چڑا پن، ہٹ دھرمی اور بدتمیزی والے رویے پیدا ہوگئے ہیں۔

💫 بچوں کی نشو و نما کی رفتار سست ہوگئی ہے کیونکہ زیادہ ٹی وی دیکھنے والے بچوں کی خوراک کم ہوجاتی ہے۔

💫 بچوں کی نیند کے اوقات بہت بری طرح متاثر ہوتے ہیں ان کی نیند خلل کا شکار رہتی ہے اور وہ رات کو صحیح طرح سو نہیں پاتے۔

یہ امر بہت تشویش ناک ہے۔ والدین کو سنجیدگی سے بچوں کی تربیت کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔ انہیں ٹی وی اور کیبل سے بچانے کے لیے دیگر سرگرمیوں کی طرف مشغول کریں۔ ٹی وی اور کیبل پر صرف اسلامی پروگرام بچوں کو دیکھنے کی اجازت دیں اور اس کے لیے بھی مناسب وقت متعین کریں۔ اِس دوران والدین خود بچوں کے ساتھ بیٹھ کر وہ پروگرام دیکھیں تاکہ بچے بے راہ روی کا شکار نہ ہو سکیں۔

⭐بچوں کو  کون سے پروگرام دکھانے چاہئیں۔۔

تربیت کے لحاظ سے والدین اپنے بچوں کو  اسلامی و تعلیمی اور ملی پروگرامز دکھائیں۔ مثلاً ، امام ابو حنیفہ، امام بخاری، صلاح الدین ایوبی، میجر عزیز بھٹی شہید، راشد منہاس شہید، قیامِ پاکستان، قائد اعظم، علامہ محمد اقبال اور تحریک پاکستان کے دیگر ہیروز کی ڈاکومنٹری وغیرہ بچوں کو دکھائی جائیں۔ اس کے علاوہ اسلامی تعلیمات کے پروگرام، علمی و روحانی شخصیات کی اصلاحی و روحانی گفتگو جو بچوں کی ذہنی صلاحیت کے مطابق ہو، بھی دکھائی جا سکتی ہے۔

والدین بچوں کو یہ اختیار ہر گز نہ دیں کہ وہ


جب چاہیں جیسا چاہیں پروگرام چلائیں اور دیکھیں، کیونکہ اس طرح بچوں کے بگڑنے کا اندیشہ بہت بڑھ جاتا ہے۔ اس امر کا بھی خصوصی خیال رکھنا چاہیے کہ بچے چھوٹے اور ناسمجھ ہوتے ہیں، انہیں فضول اور لغو مصروفیات سے بچا کر ان کی اسلامی تربیت کریں۔ بچوں کو ہر وقت کمپیوٹر کے ساتھ مصروف نہ رہنے دیں بلکہ ان کے لیے ایک ٹائم ٹیبل متعین کریں جس میں وہ بیٹھ کر اسلامی پروگرام دیکھ سکیں اور والدین بچوں کو ان چیزوں کا استعمال اس طرح کرنا سکھائیں جو بچوں کی دنیوی اور اُخروی کامیابی کا ضامن بن جائے۔



Career Exploration for Students: Finding Your Passion

 Career Exploration for Students: Finding Your Passion Discovering your career passion can be a game-changer for students. Here are some tip...